پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’اچھا اے گو نگےاب تو بھی اٹھ تیری جگہ میں بیٹھوں  گا۔ تو بھی تھک گیا ہوگا‘‘۔ بن ماس  نےاٹھتے ہوئے کہا۔

حمید ہٹ گیا اس کی جگہ بن مانس کشتی کھچنےلگا ۔

’’مسٹر فریدی اب آرتھر کو زیادہ پریشان نہ کرو‘‘۔ جو لیا بولی۔

’’ مجھے بھی بہت گرمی لگ رہی ہے ۔ فریدی نے کہا اور پتوارکور کھ کراپنی کھال اتارنے لگا۔

آرتھر کے منہ سے حیرت کی چیخ نکل گئی۔ فریدی اپنی اصل صورت میں آگیا تھا۔ اس نے پہاڑی مزدوری والا میک اپ بھی بگاڑ دیا تھا ۔

’’یہاں کہاں‘‘ آرتھرچیخ  کر بولا۔’’تم وہی تو ہو جس نے میرے کتوں کا خون کر دیا تھا‘‘۔

’’جی میں وہی ہوں!‘‘فریدی نے کہا اور خاموش ہو گیا۔

جولیا نے سارا واقعہ آرتھر کو بتایا۔

’’ مسٹر فریدی تم سے  مل کر بہت خوشی ہوئی‘‘۔ آرتھر نے فریدی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ ’’ مجھے اس وقت تم پرشبہ  ہو گیا تھا جب تم نے افریقہ کے حوالے دینے شروع کئے تھے لیکن تم نے بہت خوبصورتی سے مجھے یقین دلاد یاتھا ‘‘۔

’’ کیوں سر جارج ۔ فریدی نے کہا۔ کیا خزانہ ملا۔ تمہاری  ’’زبانی ‘‘س ہنری کی داستان سنتے ہی میں شبےمیں پڑ گیاتھا۔ محض اس لئے کہ اگر واقعی وہ کسی ایسے خزانے سے واقف تھا تو اس نے خود ہی اسے شہرت کیوں دی و ہ اس مورتی کو دکھاد کھا کر چھپانےکی کوشش کر رہا تھا‘‘۔

’’کاش میں اپنی قوم کے لوگوں کو یہاں سے پکار سکتی ‘‘۔ ملکہ قہر آلود آواز میں بولی۔ اس کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا تھا وہ فریدی کو اس طرح گھور رہی تھی جیسے موقع ملتے ہی اسے قتل کردے گی۔ پھر اس نے دریا میں چھلانگ لگانے کی کوشش کی ۔ فریدی نے جھپٹ کر اسے پکڑ لیا۔

’’ آرتھر بہتر یہی ہے کہ اسے باندھ کر ایک طرف ڈال دور نہ یہ خودکشی کرلے گی۔ صدیوں کا جنگلی پن آسانی سے نہیں جائے گا۔ اسے مہذب بنانے کے لئے تمہیں سالہا سال محنت کرنی پڑے گی‘‘۔

’’ میں اس کے لئے سب کچھ کروں گا۔ مسٹر فریدی !میں اسے بے حد چاہتا ہوں اس کے جنگلی پن میں بھی ایک اتھاہ محبت کی دولت ملی ہے‘‘ ۔ آرتھر نے کہا اور ملکہ کے ہاتھ ہی باندھ کراُسے ایک طرف ڈال دیا ۔ وہ رو رو کر آرتھر سے منت کر رہی تھی کہ اسے مرجانے دیا جائے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ خاموش ہوگئی ۔

’’ فریدی تم کبھی انگلینڈ بھی آؤ گے ؟ ‘‘جولیا نے کہا۔

میں بھی یہی کہنے والا تھا‘‘۔جارج نے کہا۔

’’آؤگا‘‘۔فریدی نے کہا اور خاموشی سے کشتی کھچتا رہا۔

’’ تم نے مجھ سے کچھ نہیں کہا ۔ حمید نے جولیا سے کہا۔

’’تم بھی آنا‘‘۔جولیا ہنس پڑی۔

’’نہیں ابھی میراباپ زندہ ہے وہ مجھے انگلینڈ نہ جانے دے گا ‘‘۔ حمید نے ایسی مسکینیت سے کہا کہ سب ہنس پڑے۔ رات کے بے کراں سناٹےمیں چپوؤں کی’’ شپاشپ‘‘ ایک عجیب سانغمہ چھیڑے ہوئے تھی۔ سر پر تاروں بھر ا لا محدود آسمان ۔آسمان صدیوں پرانی کہانی دہرار ہا تھا…. اور نیچے لہروں کی’’  ترل  رل رل ایک غیر فانی گیت گا رہی تھی۔

فریدی ماضی کے دھندلکوں میں ڈوب گیا۔

ختم شد

Leave a Comment