پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’آپ نے بھی اپنی زندگی بربادب کر لی ….حمید نے کہا۔ ‘‘

تم یہاں کیوں آئے ۔ فریدی نے کہا۔

اتنی دیر میں حمید اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔

’’او ہ …تو یہ اسی مورتی کے سلسلے میں چھان بین ہو رہی ہے ‘‘۔ حمید نے جھک کر فریدی کے سامنے کھلی ہوئی کتاب میں دیکھتے ہوئے کہا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں وہ اچھل پڑا۔

’’ارے یہ تو بالکل اسی تصویرسےمشابہ ہے…. بالکل وہی ….ہو بہو وہی ‘‘۔ حمید حیرت سے بولا۔

فریدی نے کتاب بند کر دی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے حمید کی طرف دیکھنے لگا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے۔

’’ہمیں رام گڑھ چلنا ہی پڑے گا۔ وہ اس طرح بولا جیسے کوئی خواب میں بڑ بڑاتا ہے۔

حمید نے کوئی جواب نہ دیا۔

’’سنا تم نے میں کہ رہا ہوں کہ رام گڑھ چلنا ضروری ہے ‘‘۔ فریدی نے کہا۔ ’’اور اگر تم نہ جاؤ گے تو میں تنہا جاؤں گا۔ لیکن آپ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آپ کی اس بے تابی کی وجہ کیا ہے ۔ حمید نے کہا۔ تمہیں شاید معلوم نہیں کہ ایک بار یہ مورتی میرے والد مرحوم کے قبضے میں آکر نکل گئی تھی ۔ فریدی نے کہا۔

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘ ۔ حمید نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’ والد صاحب کے بارے میں تو تمہیں پہلے ہی سے بہت کچھ معلوم ہے وہ بھی میری ہی طرح کارناموں کی تلاش میں رہا کرتے تھے۔ ایک بار یہ مورتی ان کے ہاتھ بھی لگی تھی لیکن پھر پر اسرار طریقے سے غائب ہوگئی۔ یہ مجھے ابھی ابھی اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوا۔ انہوں نے کتاب میں چھپی ہوئی تصویر کے نیچے پیتل کی مورتی کے متعلق لکھا ہے فریدی نے کتاب کو دوبارہ کھول کر دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھو۔

حمید، فریدی کے ہاتھ سے کتاب لے کر د یکھنے لگا۔

 ۲۰جنوری ۱۸۹۳ء آج جب میں نے اس کتاب کا یہ صفحہ دیکھا تو مجھے دس سال قبل کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ اسی تصویر سے بالکل ملتی جلتی ایک چھوٹی سی چیل کی مورتی مجھے ملی تھی لیکن وہ جس حیرت انگیز طریقے سے مجھ تک پہنچی تھی اسی تحیر خیز طریقے پر غائب بھی ہوگئی ۔

ایک رات گرمیوں کے زمانے میں میں اپنے پائیں باغ میں سور ہا تھا کہ دفعتًا کوئی میرے پلنگ پر آکر گرا، میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا۔ ایک  آدمی زخمی  ہو کر مجھ پر پڑا بری طرح ہانپ رہا تھا۔میں نے اُسے ہٹایالیکن دوسرے ہی لمحےمحسوس ہوا کہ و ہ بے ہوش ہے۔ میں اسے اُٹھا کر اندر لےگیاوہ ایک انگریزتھا۔ تھوڑی دیرباد ہوش آگیا ہو وہاں سے جانے کے لئے ضد کر رہا تھا۔

میں نے اس سے بہت پو چھا کہ وہ کون ہے اور کسی طرح زخمی ہو گیالیکن  اس نے اس کے متعلق بتانے سے انکار کر دیا۔ البتہ اس نے مجھے ایک مجلس کی مورتی نکال کردی اور کہا کہ میں اسے اپنے پاس امانت رکھوں جیسے و ہ کسی موقعے سے آکر لے جائے گا۔

پھر اس واقعے کے تیسرے دن بعد اس کی لاش ایک نالے میں جاری پائی گئی۔ وہ مورتی میرے پاس تقریباً ایک ہفتہ رہی پھر ایک دن غائب ہو گئی میں نے اس معمے کو سمجھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن مایوسی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آیا۔

حمید نے کتاب بند کر کے فریدی کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

’’یہ سمیلی قوم کے سی جی لا کے دیوتا کی تصویر ہے سمیلی قوم رام گڑھ سے ڈیڑ ھ سومیل دوری پر کنچار کے پہاڑی جنگلوں میں آباد ہے عملی قوم کے لوگ اب سے کئی ہزار سال پیشتر تبت کے پوربی علاقے میں رہتے تھے۔ اس وقت بھی دو ہی دیوتا کی پوجا کرتے تھے۔ کسی حادثے کی بنا پر وہ لوگ تبت سے آکر کچنار کے جنگلوں میں آباد ہوگئے۔ آج سے تین سو سال قبل ایک انگریز سیاح نے انکشاف کیا تھا کہ اس قوم پر ایک انگریز عورت حکومت کرتی ہے جسے وہ د یوی سمجھ کر پوجتے ہیں اور اس سے بھی دلچسپ ایک بات اور بھی ہے وہ یہ کہ یہ دیوی ان پر تین سو سال سے حکومت کر رہی ہے۔

Leave a Comment