پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

 ناؤ چل پڑی۔ آگے چل کر دریائے نامتی ایک جگہ دو شاخوں میں بٹ گیا اور درمیان میں زمین کا ایک حصہ ایک جزیرے کی شکل میں اُبھر آیا تھا۔ اس کا طول و عرض تقریباً دو میل رہا ہو گا۔

وہ چاروں اس جزیرے میں چھوڑ دیئے گئے۔ کشتی واپس جا چکی تھی۔ یہاں چاروں طرف گھنے جنگل تھے ۔ فریدی نے سب کو دریا کے اونچے کنارے سے نشیب میں اتار دیا۔ پھر وہ سب ایک جگہ بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے لگے۔

 فریدی نے اپنی پیٹھ پر بندھا ہو تمباکو کا گٹھرا اتار دو تین پتے مل کر چلم میں رکھے اور تمبا کو جلا کر اطمینان سے کش لینےلگا  اس شخص کا اطمینان دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے ۔ جارج نے جولیا سے کہا۔ ہاں لیکن کیا یہ اس درندے کا مقابلہ کر سکے گا۔ جولیا نے کہا۔

’’ اراد ہ تو یہی ہے مس جو لیا ‘‘فریدی مسکر کر انگریزی میں بولا۔

جارج اور جولیا دونوں اچھل پڑے۔

اوہ تم انگریزی بول سکتے ہو ‘‘۔ جارج متحیر ہوکر بولا ’’تو پھر تم اتنے دنوں تک گو نگے کیوں بنے رہے‘‘۔

’’ مصلحت ‘‘فریدی نے مسکرا کر کہا۔ ’’اگر میں ایسا نہ کرتا تو یہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتا تھا۔

’’ تو گویا تم شروع ہی سے ہمارے مقصد سے واقف تھے ۔ جولیا نے پوچھا۔

’’ہاں‘‘

’’لیکن تم کون ہو؟ ‘‘ جارج نے پوچھا۔

’’ایک مشرقی آدمی ۔ فریدی نے جواب دیا۔

’’تو کیا تم انہیں لوگوں میں سے ہو جو ایک عرصے سے اس مورتی کو حاصل کرنے کی کوشش کرر ہے تھے۔

’’ نہیں ’’آخر تم پریشان کیوں ہو گئے ہو۔ فریدی نے کہا۔’’ میں تمہارا دشمن نہیں ہوں، مجھے تو اب آرتھر سےسمجھناہے

’’تو کیا ہم اس جزیرے سے زندہ واپس جاسکیں گئے ‘‘۔ جولیا نے یاس آمیز لہجے میں کہا۔

’’خدا کی ذات سے تو ہی اُمید ہے ‘‘۔ فریدی نے کہا۔

’’ مس جولیا اس کی باتوں میں نہ آنا۔ دنیا میں اس سے بڑا مکار ملنامشکل ہے ۔‘‘ حمید بے ساختہ بولا۔

’’ ارے جولیا اچھل کر بولی ۔ ‘‘ اب اس گونگےنے بھی انگریزی بولنی شروع کردی۔

’’ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے ؟‘‘ حمیدبولا۔

’’ جو لیا اب ہمیں سچ مچ مرنے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے ۔ جارج نے کہا۔

’’ تم خواہہ مخواہ  ڈر رہے ہو سر جارج ۔ فریدی بولا۔ مجھے صرف آرتھر سے دشمنی ہے۔ اس نے میرے سب سے خوبصورت کتے کو اپنے السیشن سے مرواڈ الا تھا‘‘۔

’’ارے تو تم ہی ہو‘‘ ۔ جولیا ایک بار پھر اچھل پڑی۔ مگر نہیں !جھوٹ کہتے ہو۔ وہ ایک مہذب آدمی تھا ۔ جوان اورخوبصورت !‘‘

’’میں وہی ہوں ابھی تھوڑی دیر میں تم مجھے پہچان  لوگی۔

’’ خیر چھوڑوان باتوں کو ۔ جارج بولا ۔ اگر تم واقعی میرے دوست ہو تو اس درندے سے جان بچانے کی کوئی تدبیر کرو۔ میں اسے اپنی رائفل کا نشانہ بنانے کی کوشش کروں گا۔ فریدی نے کہا۔

ر ائفل جارج متحیر ہو کر بولا ۔‘‘اب تمہارے پاس کون سی را ئفل ہے شاید موت کے خوف سے تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔

Leave a Comment