کشتی میں بٹھتے وقت حمید کا دل زور سے دھڑکا وہ راستے بھر فریدی سے کچنار کے جنگلوں میں بسنے والی قوم کی درندگی کے واقعات سنتا آیا تھا فریدی پتوار ہاتھ میں لئے کشتی کھیچنےلگا۔
رات حد در جہ تاریک تھی۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہور ہا تھا۔ جیسے ابھی تھوڑی دیر میں بارش ہو جائے گی۔ فریدی جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا۔
ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔در یا کا پاٹ دو میل سے کسی طرح کم نہ رہا ہوگا۔ کنارے پر پہنچ کر جارج نے کشتی کی ہوا نکالی۔ پھر اسے تہہ کر کے کاندھے پر ڈال لیا۔
رات گزارنے کے لئے انہوں نے ایک اسی جگہ کا انتخاب کیا جو چاروں طرف چٹانوں سے گھری ہوئی تھی اور ان چٹانوں پر کانٹے دار جھاڑیاں تھیں۔ فریدی نے پروگرام بنایا تھاوہ سب باری باری سوتے جاگتے ر ہیں گے لیکن ایسانہ ہو سکا۔ دن بھر کے تھکے ماندے جب وہ لیٹے تو کوئی بھی اپنی بند ہوئی ہوئی آنکھوں کو نہ روک سکا۔
اور پھر جب صبح ان کی آنکھ کھلی تو ان کے سینوں پر جنگلیوں کے نیزوں کی انہاں رکھی ہوئی تھیں۔ جو لیا تو بے ہوش ہوگئی۔ یہ سب انتہائی کر یہہ المنظر تھے اور انہوں نے اپنی گردنوں اور انسانی کھوپڑیوں کی مالائیں لٹکارکھی تھیں ان کے ساتھ ایک دراز قد آدمی تھا۔ جو ان کے مقابلے میں کچھ مہذب معلوم ہوتا تھا ۔ اس نے ریشمی کپڑے کی ایکرنگین قبا پہن رکھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں وحشیانہ پن بھی نہیں تھا، جو اس کے دوسرے مسلح ساتھیوں کی آنکھوں میں تھا۔ اس کی وضع قطع دیکھ کرفریدی کو نبت کے بدھ فقیر یاد آ گئے ۔ اس نے فریدی وغیرہ کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔
یہ سب ایک طرف چل پڑے۔ جنگلیوں نے انہیں حلقے میں لے لیا۔ گویا وہ قیدی تھے۔
سورن سر پر آگیا تھا۔ وہ چلتے رہے جو لیا کی حالت غیر تھی ۔ وہ قدم قدم پر لڑ کھڑ ا جاتی تھی۔ آخر فریدی نے اسے پیٹھ پر لا دیا۔ وہ اپنا ڈنڈہ ٹیک کرلنگڑاتا ہوا چل رہا تھا۔
خُدا خُداکر کے وہ تقریباً دو بجے ایک بستی میں پہنچے۔ یہاں بے شمار جھو نپڑے تھے۔ لیکن ان کی تعمیر میں ایک خاص سلیقے کو دخل تھا۔ یہاں کے رہنے والے اگر مہذب نہیں تو نیم مہذب ضرور تھے۔ عورتیں رنگین اور خوشنما لبادوں میں ملبوس نظر آئی تھیں اور مردوں کا لباس قریب قریب وہی تھا جو فریدی کے گرفتار کرنے والوں کے پیشرو کا تھا۔ بستی کے اندر صاف ستھری سڑکیں تھیں۔ یہ لوگ جدھر سے گزرتے لوگوں کی بھیڑ لگ جاتی لیکن اس حالت میں بھی ان کی طرف سے کسی قسم کے وحشیانہ بات کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ وہ خاموشی اور حیرت سے اپنی سرزمین میں داخل ہونے والے اجنبیوں کو دیکھتے اور ایک دوسرے سے سر گوشیاں کرنے لگتے۔ ان لوگوں کا رنگ گندمی تھا اور چہروں کی بناوٹ قریب قریب ویسی ہی تھی جیسی تبت کے باشندوں کے چہروں کی ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی اداسی تھی ، جو شاید انسانیت اور وحشی پن کی آویزش کا نتیجہ تھی۔
متعد در استوں سے گزرتے ہوئے یہ لوگ ایک بڑے سے احاطے میں داخل ہوئے جس کی دیواریں مٹی کی تھیں لیکن انہیں بھی مختلف رنگوں کی گل کاریوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ یہاں ایک طرف بہت بڑے ہوئے بُت نصب تھے جو تعدا میں اٹھرہ تھے۔
فریدی چونک پڑا اور یہی حالت جارج فنلے کی بھی ہوئی۔ ان میں سے ایک بت بالکل اس پیتل کی مورتی سے مشابہ تھا۔ ’’سی ۔ جی۔ لا‘‘، فریدی نے آہستہ سے کہا اور جارج فنلے چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا اور اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.