پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

سفر جاری رہا۔ فریدی کو راستے میں آرتھر سے مڈبھیر ہو جانے کی توقع تھی۔ اس لئے اس نے راستہ ہی بدل دیا تھا۔ وہ سیدھا جانے کے بجائے پہاڑی علاقے میں داخل ہو گیا اور درمیان میں چھوٹے چھوٹے گاؤں سے گزرتا ہوا آگے بڑھنے لگا اصل دریائے نامتی کی ایک چھوٹی سی شاخ سینگل مری تک پہنچنا چاہتا تھا۔ تقریباً پینتالیس میل کی مسافت طے کرنے کے بعد لوگ سیتل ندی کے کنارے بھی گئے ۔

یہاں سے انہوں نے کنارے ہی کنارے اتر کی طرف پڑھنا شروع کردیا۔ ادھر انہیں بعض اوقات بہت ہی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا تھا ۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ جو لیا تھک کر بیٹھ جاتی ۔

فریدی کو اسے اپنی پیٹھ پر اٹھانا پڑتا۔ حمید د یکھتا اور دل ہی دل میں بیچ و تاب کھا کر رہ جاتا۔ ان راستوں کے لئے خچرقطعی بےکار ثابت ہوئے تھے اس لئے انہیں راستے ہی میں چھوڑ دینا پڑا۔

خچروں کے ساتھ بھی بہت سا سامان جس میں خیمے   میں شامل تھے ایک غار میں ڈال دیا گیا۔ خورد و نوش کا تھوڑا بہت سامان اور رائفیلیں  وغیرہ وہ لوگ اپنے کاندھوں پر لاد کر چل رہے تھے۔

سب کچھ چھوڑ دیا گیا۔ لیکن فریدی کی کا تمبا کوکا گھٹر اب تک اس کی پیٹھ پر بندھا ہوا تھا۔

 رفتہ رفتہ خورد ونوش کا سامان بھی ختم ہو گیا۔ لیکن انہیں اس کی پرو انہ تھی کیونکہ وہ اب جس  خطےسے گزر رہے تھے وہاں  بکثرت آبی پر ندےاور جنگلی پھل ملتے تھے۔

جو لیا بہت نڈھا ل ہو گئی تھی اس کے سُرخ سپید چہرے پر ہلکی سی نیلا ہٹ دوڑ گئی تھی۔ کبھی کبھی وہ اپنی زندگی سے نا امید ہو جاتی اور جارج اسے ہمیت دلانے لگتا ہے۔ اس نے اسے شروع ہی سے اس سفر سے اور کارناموں سے بھر پورفلموں  کی ماری ہوئی تھی اور خزانے سے زیادہ رومان کی تلاش میں آئی تھی۔

آرتھر کے جانے کے ٹھیک بیسویں دن بعد وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں سیتل بدی دریائے نامتی سے مل گئی تھی۔ اب انہوں نےمشرق کی طرف بڑھنا شروع کیا۔

راستے میں اسے وہ پہاڑی ہر دور دکھائی دیئے، جو آرتھر کے ساتھ چپکے سے چلے آئے تھے۔ فریدی نے جارج وغیرہ کو چھپ جانے کا اشارہ کیا اور خود اونچی نچی چٹانوں کی آڑلیتا ہوا آگے بڑھا۔ تقریباً سوفٹ کی گہرائی میں ایک ننھی سی وادی تھی جس میں انہوں نے خیمےگاڑ دیے تھے۔ فریدی چٹانوں کی آڑ لے کر نیچے اترنے لگا۔

 بہر حال اس کی چھان بین کا خلاصہ یہ ہے کہ آرتھر ان پہاڑیوں میں نہیں تھا ۔ فریدی ،وہی چھپا بیٹھار ہا۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ آہستہ آہستہ تاریکی کی چادر حد نظر تک پھیلی ہوئی پہاڑیوں پر پھیلتی جارہی تھی ۔ ایک مزدور اس کی طرف آنکلا جہاں فریدی چھپا ہوا تھا۔ وہ اچانک اس پر ٹوٹ پڑا۔ فریدی اور اصل یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آرتھر کہاں ہے وہ مزدوروں کو لے کر دریا کے پار گیا تھا پھر واپس نہیں آیا۔

اندھیرے کی وجہ سے وہ مزد ور فریدی کو پہنچان نہ سکا۔ فریدی نے اس سے کہا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس چلا جائے اور نہ کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو جانے کے امکانات ہیں۔ مزدور کو چھوڑ کر فریدی جارج وغیرہ کے پاس واپس آگیا اور پھر ان لوگوں نے تاریکی میں دریا کے کنارے کنارے چلنا شروع کیا۔ فریدی سو چ ر ہا تھا کہ وہ جارج کو آرتھر کی گمشدگی کا حال کس طرح بتا ئے اب خود اسے اپنے گو نگے پن سے الجھن ہونے لگی تھی ۔

 بہر حال ایک جگہ رک کر فریدی نے دریا کی طرف اشارہ کیا کہ اب ہمیں پار چلنا چاہئے ۔ جارج نے ایک تہہ کی ہوئی ربڑکی کشتی نکالی اور اس میں سائیکل کے پمپ سے ہوا بھر نے لگا۔ تھوڑی دیر بعد کشتی پانی میں تیرنے کے قابل ہوگئی۔ یہ اتنی بڑی تھی کہ اس پر دس آدمی نہایت آسانی سے بیٹھ سکتے تھے۔

Leave a Comment