فریدی کا خچر سب سے پیچھے تھا۔ حسب دستور وہ اس وقت بھی اپنے خچر کی باگ تھا مےموٹا سا ڈنڈا ٹیکتا ہوا پیدل چل رہا تھا۔
’’اس کی گٹھری اس کی پیٹھ پر بندھی ہوئی تھی۔
’’ حمید نے اپنے خچرکی رفتار میں کمی کردی۔ آہستہ آہستہ وہ فریدی کے برابر آ گیا۔
’’آپ دنیا میں کچھ نہیں کر سکتے حمید نے کہا۔
’’میں نے کبھی اس کا دعوی نہیں کیا ۔ فریدی مسکرا کر بولا ۔
’’نہیں واقعی آپ ‘‘
’’بالکل ا حمق ہیں ۔ فریدی نے جملہ پورا کر دیا۔
’’بھلابتا ئے آپ کے رات والے کارنامے سے آپ کو کیا فائدہ پہنچا ‘‘حمید نے کہا۔
’’ اچھا حمید صاحب آپ بھی فرما دیجئے کہ میرے کسی کا رنامے سے مجھے فائدہ پہنچا ہے ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔
’’کسی سے نہیں‘‘۔
’’تو پھر تم نے خصوصیت سے رات والے کارنامے کا حوالہ کیوں دیا ۔
’’تو فرمائے نا‘‘۔
’’مطلب یہ ہے کہ اگر آپ نے اصلی صورت میں کارنامہ سرانجام دیا ہوتا تو ‘‘۔
’’تو کیا ہوتا‘‘۔
’’مطلب یہ کہ‘‘۔
’’کیو کیو ۔ رک کیوں گئے“۔ فریدی نے کہا۔
’’بات یہ ہے کہ جو لیا …‘‘حمید جملہ پورا نہ کر سکا۔
’’اوہ سمجھا‘‘۔ فریدی ہنس کر بولا ’’ جولیا مجھ پر عاشق ہو جاتی اور میں اٹھارویں صدی کے کسی ناول کے ہیرو کی طرح ایک بار اور اپنی جان پر کھیل جانے کی کوشش کرتا بہر حال لیکن تمہیں اس سے کیا فائدہ ہوتا۔
’’قائدہ!‘‘ ارے میں دیکھ کر خوش ہوتا ‘‘ حمید چہک کر بولا۔
ہوتا ہے‘‘۔
’’بس تم اب یہ دعا مانگو گو کہ کسی جنگی صورت سے تمہاری ملاقات نہ ہو۔ ورنہ ساری مردانگی و عشق بازی دھری رہ جا ئےگی ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔
’’نہیں دیکھئے مذاق نہیں میں اس سفر سے تنگ آگیا ہوں‘‘۔
’’تو واپس چلے جاؤ ‘‘ فریدی نے لا پروائی سے کہا ‘‘ تم اس لڑ کی جولیا سے بھی گئے گزرے ہو‘‘۔ آپ بھی لڑکیوں کی بات لے بیٹھے ۔ حمید نے کہا ’’ ارے وہ جنگلی اسے پکڑ ہی لے جاتا تو کون سی مصیبت آجاتی ۔ شادی کرتا اور گھر میں ڈال لیتا بھلا میں کس مصرف کا ہوں‘‘۔
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.