پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’ آگے ایک گاؤں ہے وہاں ہم دو تین دن ٹھہرجائیں کے لیکن ہم لوگوں کو کافی محتاط رہنا پڑے گا کیونکہ اب ہمیں ایسے لوگوں سے دوچار ہو ناہے جو قطعی وحشی ہیں۔

اگر انہوں نے ہمیں گاؤں میں داخل نہ ہونے دیا تو جارج فنلے نے کہا۔

’’گھبرانے کی بات نہیں، میں ان کے سردار کے پاس جارہا ہوں“۔ آرتھر نے جارج فنلے سے کہا ۔ وہ جنگی آرتھر کو ایک بڑے جھونپڑے کے باہر چھوڑ کر خود اندر چلا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا اس کے ساتھ ایک آدمی اور تھا جس نے بے شمار معدے زیورات پہن رکھے تھے اور اس کا منڈا ہوا سر پیلے رنگ سے رنگا ہوا تھا۔ آرتھر کو دیکھتے ہی وہ ہنس پڑا۔ آرتھر نے اس کے قریب پہنچ کر مکا تانا ہے وہ بوسہ دے کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر اس نے مکا تاتا اور آرتھر اسے بوسہ دے کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر دونوں نے زمین پر دوزانوں بیٹھ کر آہستہ آہستہ تین بار اپنے سر ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ غالباً یہ ان کا معانقہ تھا۔ وہ شخص جو آرتھر کولا یا تھا۔ سردار کا اشارہ پاکر آرتھر کے سامنے اچھلنے کودنے لگا۔ اس نے آرتھر کے گردتین چکر لگائے اور اس کا داہنا ہاتھ چوم کر زمین پر بیٹھ گیا۔

پھر سردار نے اس سے کچھ کہا اور وہ اٹھ کر اس طرف چلا گیا جدھر جارج فنلےوغیر ہ کھڑے تھے۔

 تھوڑی دیر بعد خچروں پر سے سامان اتارا جانے لگا۔ پرانی شناسائی کی بناپر جنگیوں کے سردار نے آرتھر کو وہاں قیام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ جولیا بری طرح خائف تھی اگر کسی جنگلی سے اس کی آنکھیں چار ہو جائیں تو وہ خوف سے لرزنے لگتی تھی۔ ایک بار خیمےمیں جانے کے بعد وہ پھر باہر نہیں نکلی فریدی اور حمید ایک خیمےکی رسیاں تان رہے تھے ۔ حمیدپسینہ پسینہ اور ہا تھا ۔

’’ کیوں حمید صاحب ان جنگلی عورتوں میں سے کوئی پسند آئی ۔ فریدی نے آہستہ سے کہا۔

’’ارے یہ عورتیں ہیں۔ اگر یہ عورتیں ہیں تو میں لفظ عورت پر سو بار لعنت بھیجتا ہوں‘‘۔

’’ لیکن گھبراؤ نہیں صاحبزادے بہت جلد ان میں سے کوئی ایک تمہارے لئے سوہان روح بینے والی ہے‘‘ ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔

’’کیا مطلب؟‘‘حمید چونک کر بولا۔

’’تم اس قوم کی عجیب و غریب مہمان نوازی سے واقف نہیں ہوا‘‘۔ فریدی نے کہا ۔ آج رات تمہیں کسی نہ کسی عورت کے ساتھ ناچنا پڑے گا۔

’’دیکھئے میں خودکشی کرلوں گا۔ حمید نے جھلا کر کہا۔

’’میرے خیال میں خودکشی سے زیادہ آسان تو  وہ ناچ رہے گا ۔ فریدی نے مسکرا کر کہا۔

’’دیکھئے… میں آپ سے…‘‘

’’چپ چپ ‘‘ آرتھر آرہا ہے۔ فریدی نے کہا۔

آرتھر ان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔

’’کہو تم ان جنگلیوں سے خائف تو نہیں ہو‘‘۔ آرتھر نے فریدی سے ہنس کر پو چھا۔

’’بالکل نہیں بھلا ان میں خوف زدہ کرنے والی کیا بات ہے ۔ فریدی نے جواب دیا۔

’’کیا تمہارادہ انگریز شکاری ادھری سے گذرا تھا؟‘‘

’’نہیں ۔ دوسری طرف سے فریدی نے کیا۔ ’’ہمیں و ہ پہاڑی ندی نہیں پار کرنی پڑی تھی۔

’’اس قبیلے کا سردار میر اور دست ہے ۔ آرتھر نے کہا۔

’’لیکن گو ٹاقوم قابل اعتبار نہیں ہے ۔ فریدی بولا۔

’’تمہیں کیا معلوم ‘‘آرتھر چونک کر بولا ۔ ’’تم شاید ادھر کبھی آئے ہی نہیں۔

’’یہ میں نے اپنے باپ کی زبانی سنا تھا ۔ فریدی نے جواب دیا۔

’’نہیں ایسا نہیں ہے‘‘۔

’’بتا دینا میرا کام تھا آگے آپ کو اختیار ہے ۔ فریدی نے کہا‘‘  خصوصًا ایسی صورت میں جب کہ آپ کے ساتھ ایک جوان لڑکی ہے۔ آپ کا محتاط رہنا ضروری ہے۔ بکواس ہے ۔ آرتھر نے نا خوشگوار لہجہ میں کہا اور آگے بڑھ گیا۔ فریدی پھر قیمہ درست کرنے میں مشغول ہو گیا۔

Leave a Comment