پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

روانگی

فرید ی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ حمید اور وہ جارج فنلے کے بار برداروں کی ٹوٹی میں شامل کر لئے گئے۔ فریدی نے دوخچر خرید لئے تھے اگر وہ ایسانہ کرتا و شاید حمید کی ہمت نہ پڑتی ۔ ڈیڑھ سو میل کا پیدل سفر آسان کام نہیں اور پھرایسے لوگوں کے لئے جن کی زندگی محنت اور مشقت سے دور گزری ہو۔

 تیسرے دن یہ کارواں جو پچپن آدمیوں پر مشتمل تھا۔ مشرق کی طرف روانہ ہو گیا ان کے ساتھ میں خچربھی تھے جن پر چھوٹے چھوٹے خمےاور دوسرا سامان لدا ہوا تھا۔ فریدی اور حمید کے خچروں پر بہت تھوڑ اسامان تھا اس لئے وہ کبھی کبھی بیٹھ بھی لیتےتھے۔ حمید کوفر یدی پر حیرت ہورہی تھی ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی ہو۔ وہی چال ڈھال وہی وحشیانہ اندازویسی ہی جفا کشی و ہ شخص جو ہمیشہ نہایت محدود اور آرام دہ جوتے استعمال کرتا تھا اس وقت اتنی آسمانی کے ساتھ پتھریلی زمین پر نگے پیر چل رہاتھا ۔ جیسے اس نے بھی جوتے پہنے ہی ہوں۔

 حمید کا دم گھٹ رہا تھا کیونکہ اس کی قینچی کی طرح چلنے والی زبان روک دی گئی تھی ۔ فریدی کی اسکیم کے مطابق وہ ایک ہونے کی حیثیت سے پارٹی میں شامل ہوا تھا۔ فریدی جب اس سے اشاروں میں بات کرتا تو اسے بے ساختہ ہنسی آ جاتی اورفریدی اسے بری طرح گھورنے لگتا۔

فریدی نے کچھ اتنا گھناؤ بھیس بدلا تھا کہ بعض اوقات تو حمید کا جی مالش ہونے لگتا وہ ایک ادھیڑ عمر کے پہاڑی مزدور کے بھیس میں تھا اس کے منہ سے ہر وقت رال بہہ بہہ کر تھوڑی سے چلتی رہتی تھی۔ اسے وہ نہایت لا پروائی سے پھٹی ہوئی قمیص کی آستینوں سے ہو پوچھ لیتا تھا۔

اس وقت وہ ایک خچرکی باگ ڈور تھا مےسے ایک موٹے سے بانس کا  ڈنڈاٹیکتا لنگڑاتا ہوا نا ہموار راستے طے کر رہا تھا۔ قافلے کی رفتار بہت آہستہ ست ہوتی جارہی تھی۔ قافلے کا راہبہر کیپٹن آرتھر پر ڈالنے کے لئے کسی مناسب جگہ کی تلاش میں تھا۔ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی خمیے نصب کر دینا چاہتا تھا۔

شام کی سرد ہوتی ہوئی سرخی مائل دھوپ پہاڑیوں پر پھیلی ہوئی تھی ہر طرف ایک پر اسرار سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ایسا سناٹاجوپتھریلی زمین پر خچھروں کی ٹاپوں کی آواز کے باجود بھی برقرار تھا۔ کبھی کسی پہاڑی عقاب کی تیز آو از دور لہراتی چلی جاتی۔ آرتھر ، جولیا اور جارج فنلےاپنے اپنے خچروں سے اتر پڑے کا رواں رک گیا ۔ ایک گھنٹہ کے بعد ویران چٹانوں کے درمیان کافی چہل پہل نظر آنے لگی جیسے نصب کر دیئے گئے۔ جابجا آگ جلادی گئی دھند لکا تاریکی میں تبدیل ہو چکا تھا۔

مغربی افق میں شوخ رنگوں کے لہرئیےسیاہی کے غبار میں دب کر آہستہ آہستہ دھندلے ہوتے جارہے تھے۔

آرتھر مزدوروں کو رات کے کھانے کے لئے چاول اور خشک مچھلیاں بانٹتا پھر رہا تھا۔ کسی جگہ رک کر مزدوروں کو کچھ ہدایات بھی دینے لگتا تھا ۔ وہ پہاڑی زبان بخوبی بول سکتا تھا۔ اس نے شاید ادھر کی زبانوں سے  اس وقت سیکھی تھیں جب وہ پہاڑی جنگلات کا افسر تھا اس کے بر خلاف جارج فنلےاور جو لیامشرقی زبانوں سے بالکل ہی نا واقف تھے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آرتھر کو اپنا راہبر بنا یا تھا۔

Leave a Comment