پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’یہ کتا بھی آرتھر ہی کا تھا۔ بہت خطرناک قسم کا بلڈ ہاؤنڈ (blood bound) اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہےکہ یہ آپ اپنے شکار کی بو پا جانے پر اسے پاتال میں بھی نہیں چھوڑتا ۔ آرتھر نے شاید اسے السیشن کی لاش سنگھا کر یلوڈنگو کے راستے پر لگا دیا تھا۔  جہاں تک ڈنگو اپنے پیروں سے چل کر آیا تھا اس نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا لیکن یہاں آخر وہ مجبور ہو گیا کیونکہ تم ڈنگ کو یہاں سے گود میں لائے تھے یہ بھی ایک اتفاق تھا جس کی وجہ سے اس وقت بچ  گئے ،ور نہ دوسری صورت میں سیدھا نہیں آتا اور نت نئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا‘‘۔

’’تو یہ کہیئے ۔ حمید نے مسکرا کر کہا۔ ‘‘میں تو سمجھا تھا شاید خدا نخواستہ‘‘۔

’’ دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ فریدی نے جملہ پورا کر دیا۔

’’بھلا میں یہ کیسے کہ سکتا ہوں‘‘حمید ہنس کر بولا ۔

’’ خیر..خیر…ختم کرو یہ باتیں… اپنا ضروری سامان ٹھیک کر لو۔ ہمیں اسی وقت یہ مکان چھوڑنا ہے‘‘۔

’’جی‘‘۔ حمید چونک کر بولا۔ ’’ کیا مطلب‘‘۔

’’کسی ہوٹل میں چل کر ر ہیں گئے‘‘۔

’’آخر کیوں ؟‘‘

’’بھئی عجیب گھا مٹر آدمی ہو ۔ فریدی بولا ۔ ’’ اس علاقے میں اس کتے پر گولی چلانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ یہیں کہیں رہتے ہیں ۔

’’تعجب ہے کہ اس انگریز سے اس بری طرح خائف ہو گئے ‘‘۔ حمید نے کہا۔

’’تم غلط سمجھےبات یہ نہیں ۔ فریدی نے کہا۔ آرتھر سے خائف ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ڈر اس بات کا ہے کیا دوبارہ اس کا سامنا ہو گیا تو میں اپنی اسکیموں کو عملی جامہ نہ پہنا سکوں گا‘‘۔

’’آخر وہ اسکیمیں معلوم تو ہوں ‘‘۔ حمید نے اکتا کر کہا۔

’’ اطمینان سے بتاؤں گا‘‘۔ فریدی نے کہا ۔ ابھی جو کچھ میں کہ رہا ہوں اس پر عمل کرو۔ حمید نے بادلِ نخواستہ اٹھ کر  ضروریات کی چیزیں اکٹھی کیں اور ایک سوٹ کیس میں رکھیں ۔ فریدی بھی انتظام میں مشغول ہو گیا۔ اس نے نوکروں کو ضروری ہدایات دیں اور انہیں ایک کثیر رقم دے کر اس وقت تک رام گڑھ میں مقیم رہنے کے لئے کہا جب تک وہ واپس نہ آجائے ۔ ان نوکروں کو و ہ اپنے ہمراہ لایا تھا اور یہ سب معتبر اور پرانے نوکر تھے۔

فریدی اور حمید نے ایک ایک سوٹ کیس اور ہوائڈ ال اٹھا لئے اور گھر سے نکل کر باہر پھیلی ہوئی تاریکی میں گم ہو گئے۔ تقریبًا ایک گھنٹے کے بعد و ہ ایک متوسط درجے کے صاف ستھرے ہوٹل میں بحیثیت مسافر داخل ہو رہے تھے۔ انہیں رہائش کے کمرے مل گئے۔

Leave a Comment