پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

فریدی کی عجیب حرکت

حمید کی الجھن لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جارہی تھی۔ اندھیرے میں اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ فائر کی آواز اور مرتے ہوئے کتے کے شور کی وجہ سے پاس کی کئی عمارتوں میں روشنی نظر آنے لگی تھی۔ کچھ لوگ باہر بھی نکل آئے تھے۔ حمید نے بھی غیر ارادی طور پر کمرے میں روشنی کر دی اور باہر نکل آیا چار پانچ آدمی جن کے ہاتھوں میں  ٹارچیں تھیں کتے کی لاش کو دیکھ رہے تھے ۔

یہ ایک کافی قوی اور خوفناک کتا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد کچھ ایسی مضحکہ خیز قسم کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ حمید کو الٹے پاؤں واپس آنا پڑا اسے ڈ رتھا کہ کہیں وہ بے تحاشہ ہنسنا نہ شروع کر دے۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دیکھا فریدی ایک آرام کرسی پردر از سگار کے ہلکے ہلکے کش لے رہا تھا۔ اس کی رائفل کرسی کے بازو سے ٹکی ہوئی تھی۔ حمید کو دیکھ کر مسکرایا۔

’’ آخر آپ نے یہ سب کیا اودھم مچارکھی ہے ‘‘۔ حمید نے جھنجلا کر کہا۔

’’ خیر یہ بعد میں بتاؤں گا تم یہ بتاؤ کہ ڈنگو کو گھر تک کس طرح لائے تھے ۔ فریدی نے پو چھا‘‘۔

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘۔

’’مطلب یہ کہ و ہ اپنے پیروں سے چل کر یہاں تک پہنچا تھا یا کسی اور طرح‘‘۔

’’آخر آپ یہ کیوں پو چھا ہے ہیں ‘‘۔

’’تم میرے سوال کا جواب دو‘‘۔ فریدی نے اکتا کر کہا۔

’’ کچھ دور تک مجھے اس کو گود میں لانا پڑا تھا‘‘ ۔

’’کیا اسی جگہ سے تو نہیں جہاں ہم نےابھی اس کتے کو دیکھا تھا ۔ فریدی نے پو چھا۔

’’بہت ممکن ہے وہی جگہ رہی ہو ‘‘۔حمید نے کہا۔ وہاں پہنچ کروہ کسی طرح آگے بڑھ میں نہیں رہا تھا۔ مجبورا ًمجھے اسے گود میں اٹھا نا پڑا۔

’’اوہ تو یہی وجہ تھی ۔‘‘ فرید ی بے ساختہ بولا ۔

’’آخر آپ کچھ بتاتے کیوں نہیں ‘‘۔ حمیدے بے صبری کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’ابھی تم جس کتے کی لاش دیکھ کر آئے ہوا سے میں نے ہی مارا ہے‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔

’’ لیکن کیوں۔ حمید بے تابی سے بولا ۔ آخر آج کتوں کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں ‘‘۔

’’اگر میں اسے ٹھکانے نہ لگا دیتا تو اچھی خاصی مصیبت آجاتی اور میری بنائی ہوئی اسکیم خاک میں مل جاتی‘‘ ۔ فریدی نے بجھا ہوا  سگارایش ٹرے میں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’اب ختم بھی کیجئے یہ پہیلیاں‘‘۔ حمید اکتا کر بولا۔

Leave a Comment