بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’یہی کہ چھیالیس نمبر بوتھ سے پچھلے آدھے گھنٹے سے کوئی کال نہیں ہوئی مگر روٹی تم نے کمال کر دیا۔ جو کچھ میں کہتاوہی  تم نے بھی کہا ۔‘‘

“تم کیا جانو کہ اُس نے کیا کہا تھا ۔”

’’تمہارے جوابات سے میں نے سوالوں کی نوعیت معلوم کر لی تھی ‘‘

’’تو تم صرف عورتوں کے معاملے میں بیوقوف معلوم ہوتے ہو ۔‘‘

” تم خود بیوقوف ” عمران بگڑ کر بولا۔

’’ چلو… چلو‘‘ وہ اُسے ٹیکسی کی طرف دھکیلتی ہوئی بولی۔

’’نہیں… تم بار بار مجھے بے وقوف کہہ کر چڑارہی ہو‘‘۔

 عمران نے بکواس کو طول نہیں دیا دہ بہت کچھ سوچنا چاہتا تھا۔

’’اُس کی آواز بھی عجیب تھی‘‘ روشی  نے کہا ’’ایسا معلوم ہور ہا تھا جیسے کوئی بھوکا بھیڑ یا غرار ہا ہو… مگر یہ کیسے ممکن ہے۔ایکسچنج  کواس کی اطلاع تک نہ ہوئی ؟”

’’اُدنھ، ماروگولی ، ہمیں کرنا ہی کیا ہے‘‘ عمران نے گردن جھٹک کر کہا ” مجھے تو اب اس لڑکی کی تلاش ہے جس نے میرے نوٹوں میں گھپلا کیا تھا۔”

’’نہیں عمران‘‘ روشی سنجیدگی سے بولی‘‘ یہ عجیب وغریب اطلاع پولیس کے لئے کافی دلچسپ ثابت ہوگی۔”

’’کون سی اطلاع …؟”

’’یہی کہ سکس ناٹ کو رِنگ کیا جاتا ہے، با قاعدہ کال ہوتی ہےاور ٹیلیفون ایکسچنج کواس کی خبر تک نہیں ہوتی ‘‘۔

’’اے  روشی ، خبر دار… خبر دار کسی سے اس کا تذکرہ مت کرنا، کیا تم سچ مچ  اپنی گردن تڑوانا چاہتی ہو۔ اگر پولیس تک یہ بات گئی تو سمجھ لو کہ ہم دونوں ہی ختم کر دئے جائیں گے۔ وہ کوئی معمولی چور یا اُچکا نہیں معلوم ہوتا… ہاں ! میں نے سینکڑوں جاسوسی ناول پڑھے ہیں۔ ایک ناول میں پڑھا تھا کہ وہ آدمی ہر جگہ موجود رہتا تھا۔ جہاں نام لو، وہیں دھرا ہوا ہے۔ خدا کی پناؤ ” عمران اپنا منہ پیٹنے لگا اور روشی بننے لگی اور کافی دیر تک ہنستی رہی… پھر اچانک چونک کر سیدھی بیٹھ گئی۔ وہ حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔

’’تم ہوش میں ہو یا نہیں ‘‘اس نے عمران کی طرف جھک کر آہستہ سے کہا ” ہم شہر میں نہیں ہیں”۔

عمران آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کار حقیقتاً ایک تاریک سڑک پر دوڑ رہی تھی اور دونوں طرف دور تک کھیتوں اور میدانوں کے سلسلے بکھرے ہوئے تھے۔

’’پیارے ڈرائیور گاڑی روک دو ۔‘‘ عمران نے ڈرائیور سے کہا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اُسے اپنی پشت پر شیشہ ٹوٹنے کا چھنا کا سنائی دیا اور ساتھ ہی کوئی ٹھنڈی سی چیز اس کی گردن سے چپک گئی۔

’’خبر دار چُپ چاپ بیٹھے رہو ‘‘۔ اُس نے اپنے کان کے قریب ہی کسی کو کہتے سنا ” تمہاری گردن میں سوراخ ہو جائے گا اور لڑکی تم دوسری طرف کھسک جاؤ۔”

ٹیکسی پرانے ماڈل کی تھی اور اس کی اسٹپنی  اُوپر کی طرف سے کھلتی تھی۔ غالباً شروع سے یہ آدمی چھپارہا تھا۔ جنگل میں پہنچ کر اُس نے اسٹپنی کھولی اور کار کا پچھلا شیشہ توڑ کر ریوالور عمران کی گردن پر رکھ دیا۔ روشی خوفزدہ نظروں سے اُس چوڑے چکے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جس میں ریوالور دبا ہوا تھا۔

 عمران نے جنبش تک نہ کی وہ کسی بُت کی طرح بے حس و حرکت نظر آر ہا تھا، حتیٰ کہ اُس کی پلکیں تک نہیں جھپک رہی  تھیں۔ کار بد ستور فراٹے  بھرتی رہی۔ روشی پر غشی سی طاری ہورہی تھی، اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے کار کارخ تحت الثریٰ کی طرف ہو۔ اُس کی آنکھیں بند ہوتی جارہی تھیں۔

اچانک اُس نے ایک چیخ سنی۔ بالکل اپنے کان کے قریب اور بوکھلا کر آنکھیں کھول دیں۔ عمران کار کے عقبیٰ شیشے  کے ٹوٹنے سے پیدا ہو جانے والے خلا سے اندھیرے میں گھور رہا تھا اور ریوالور اُس کے ہاتھ میں تھا۔

’’ڈرائیور‘‘ گاڑی روکو۔ ‘‘عمران نے ریوالور کا رخ اُس کی طرف کر کے کہا۔ ڈرائیور نے پلٹ کر دیکھا تک نہیں ‘‘۔ میں تم سے کہہ رہا ہوں اُس نے اس بار ریوالور کا دستہ ڈرائیور کے سر پر رسید کردیا۔ ڈرائیور ایک گندی سی گالی دے کر پلٹا لیکن ریوالور کا رخ اپنی طرف دیکھ کر دم بخودرہ گیا۔ ’’گاڑی روک دو پیار ے‘‘ عمران اُسے پکار کر بولا ‘‘تمہارے ساتھی کی ریڑھ کی بڑی ضرور ٹوٹ گئی ہوگی کیونکہ کار کی رفتار بہت تیز تھی‘‘۔

کاررُک گئی۔

 ” شاباش‘‘ ۔ عمران آہستہ سے بولا۔’’ اب تمہیں بھیرویں سناؤ یا دُرگت… یا جو کچھ بھی اُسے کہتے ہوں، دھرپُت کہتے ہیں شاید… لیکن پڑھے لکھے لوگ عمومااًٍ اور دپد  کہتے ہیں”۔ ڈرائیور کچھ نہ بولا ۔ وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔

’’روشی ۔ اس کے گلے سےٹا ئی کھول لو‘‘ عمران نے کہا۔

تھوڑی دیر بعد کار شہر کی طرف واپس جارہی تھی۔ روشی اور عمران ابھی سیٹ پر تھے۔ عمران کار ڈرائیو کر رہاتھا۔ پچھلی  سیٹ پر ڈرائیور بے بس پڑا ہوا تھا۔ اُس کے دونوں ہاتھ پُشت  پر اُسی کی ٹائی سے باندھ دئے گئے تھے اور پیروں کو جکڑنے کے لئے عمران نے اپنی  پیٹی  استعمال کی تھی اور اُس کے منہ میں دو عدد ر و مال حلق تک ٹھونس دئے گئے تھے۔ سیٹ کے نیچے ایک لاش تھی جس کا چہرہ بھرتا ہو گیا تھا۔ روشی اس  طرح خاموش تھی جیسے اس کی اپنی زندگی بھی خطرے میں ہو ۔ وہ کافی دیر سے کچھ بولنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ابھی تک اسے کامیابی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ آخر کب تک، کار میں پڑی ہوئی لاش اسے پاگلوں کی طرح  چیخنے پر مجبور کر رہی تھی ۔‘‘ میرا خیال ہے کہ اب تم سید ھے کوتوالی چلو‘‘ روشی نے کہا۔

’’ارے باپ رے ‘‘عمران خوفزدہ آواز میں بڑبڑایا۔

’’ نہیں تمہیں چلنا پڑے گا۔ کچھ نہیں کوئی خاص بات نہیں ہم جو کچھ بھی بیان دیں گے ، وہ غلط نہیں ہو گا۔ تم نے اپنی جان بچانے کے لئے اُسے نیچے گرایا تھا۔‘‘

’’وہ تو سب ٹھیک ہے مگر پولیس کا چکر… نہیں یہ میرے بس کا روگ نہیں ۔”

’’ پھر لاش کا کیا ہوگا؟ تم نے اُسے وہاں سے اُٹھایا ہی کیوں؟ ڈرائیور کو بھی یہیں چھوڑ آئے ہوتے ۔ کار ہم شہر کے باہر چھوڑ کر پیدل چلے جاتے۔

’’ اسی وقت کیوں نہیں دیا تھا یہ شورہ ‘‘عمران غصیلی آواز میں بولا ۔ اَب کیا ہو سکتا ہے۔ اَب  تو ہم شہر میں داخل ہو گئےہیں۔‘‘

 روشی کے ہاتھ پیر ڈھیلے ہو گئے ، اس نے پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’اب بھی غنیمت ہے… پھرو ہیں وا پس چلو۔‘‘

’’تم مجھ سے زیادہ احمق معلوم ہوتی ہو۔ اس بارا گر دس پانچ سے ملاقات ہوگئی تو میر امر بہ بن جائے گا اور تمہاری جیلی ‘‘۔

’’پھر کیا کرو گے؟”

’’دیکھو… ایک بات سوجھ رہی ہے۔… مگر تمہیں نہ بتاؤں گا، ورنہ تم پھر کوئی ایسا مشورہ دوگی کہ مجھے اپنی عقل پر رونا آجائے گا۔

روشی خاموش ہوگئی ، اس لئے نہیں کہ لاجواب ہو گئی تھی، بلکہ اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا اور حلق میں کانٹے پڑے جارہے تھے ۔ عمران کار کو شہر کے ایک ایسے حصے میں لایا جہاں کرائے پر دیئے جانے والے بہت سے گیراج تھے۔ اُس نے ایک جگہ کار روک دی اور اُتر کر ایک گیراج حاصل کرنے کے لئے گفت و شنید کرنے لگا۔ اس نے منیجر کو بتایا کہ وہ ایک سیاح ہے، کاروینشن ہوٹل میں قیام ہے چونکہ وہاں کاروں کے لئے کوئی انتظام نہیں ، اس لئے وہ یہاں ایک گیراج کرائے پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بات غیر معمولی نہیں تھی ، اس لئے اُسے گیراج حاصل کرنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ اُس نے ایک ہفتے کا پیشگی کرایہ ادا کر کے گیراج کی کنجی اور رسید حاصل کی اور کار کو گیراج میں مقفل کر کے روشی کے ساتھ ٹہلتا ہوا دوسری سڑک پر آ گیا۔

’’لیکن اس کا انجام کیا ہوگا ؟‘‘ روشی بڑ بڑائی۔

” صبح تک وہ ڈرائیور بھی مر جائے گا‘‘ عمران نے بڑی سادگی سے کہا۔

 ” تم با اکل گدھے ہو‘‘ روشی جھلا گئی۔

’’ نہیں ، اب میں اتنا گدھا بھی نہیں ہوں۔ میں نے اپنا صیح نام اور پتہ نہیں لکھوایا ۔”

’’اس خیال میں نہ رہنا ۔ ” روشی نے تلخ لہجے میں کہا۔ ” پولیس شکاری کتوں کی طرح پیچھا کرتی ہے۔”

’’ فکر نہ کرو ۔ ایک ہفتے تک تو وہ گیراج کھلتا نہیں کیونکہ میں نے ایک ہفتے کا پیشگی کرایہ ادا کیا ہے اور پھر ایک ہفتے میں ، میں نہ جانے کہاں ہوں گا۔ ہو سکتا مر ہی جاؤں، ہو سکتا ہے کہ اُس نا معلوم آدمی کی موت آجائے ، بہر حال وہ اپنے دو ساتھیوں سے تو محروم ہو ہی چکا ہے۔“

روشی کچھ نہ بولی۔ اس کا سر چکرا رہا تھا۔ عمران نے ایک گزرتی ہوئی ٹیکسی رکوائی ۔ روشی کے لئے دروازہ کھولا اور پھر خود بھی اندر بیٹھتا ہوا ڈرائیور سے بولا ’’وہائٹ ماربل‘‘ روشی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

’’ ہاں ۔‘‘ عمران سر ہلا کر بولا ’’وہیں کھانا کھا ئیں گے، کافی پئیں گے اور تم دو ایک پیک پی لینا۔ طبیعت سنبھل جائے گی۔ ویسے اگر چیونگم پسند کرو توا  بھی دوں اور ہاں، ہم دو ایک راؤ نڈ رمبا بھی ناچیں گے۔”

” کیا تم بچ بچ پاگل ہو‘‘ روشی آہستہ سے بولی۔

’’ہا ئیں!کبھی احمق ،کبھی پاگل ، اب میں اپنا گلا گھونٹ لوں گا ۔ “

روشی خاموش ہوگئی ۔ وہ اس سلسلے میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی۔ روشی کادل چاہ رہا تھا  کہ پاگلوں کی طرح  چیختی ہوئی گھر کی طرف بھاگ جائے۔ عمران اُسے ایک کیبن میں بٹھا کر باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ باتھ روم کا تو صرف بہانہ تھا۔ وہ در  اصل اُس کیبن میں جانا چاہتا تھا جہاں گاہکوں کے استعمال کرنے کا فون تھا۔

اُس نے وہ نمبر ڈائل کئے جن پر انسپکٹر جاوید سے ہر وقت رابطہ قائم کیا جاسکتا تھا۔

’’ہیلوکون…؟ انسپکٹر جاوید سے ملنا ہے۔ اوہ آپ ہی ہیں۔ سنئے میں علی عمران بول رہا ہوں… ہاں ،دیکھئے۔ امیر گنج  کے گیراج نمبر تیرہ میں، جو مقفل ہے آپ کو نیلے رنگ کی ایک کار ملے گی۔ اس میں دو شکار ہیں۔ ایک مر چکا ہے اور دوسرا شاید آپ کو زندہ ملے۔ گیراج کی کنجی میرے پاس ہے۔ آپ تلاشی کا وارنٹ لے کر جائیے اور بے دریغ تالا توڑ دیجئے … ہاں، ہاں ۔ یہ اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دونوں اُسی  کے آدمی ہیں اور سنئے  کافی رازداری کی ضرورت ہے۔ اس واقعے کو راز ہی رہنا چاہیئے۔ مکمل واقعات آپ کو کل صبح معلوم ہوں گے۔ اچھا شب بخیر ‘‘- عمران ریسیور رکھ کر روشی کے پاس واپس آ گیا۔

روشی کی حالت ابتر تھی۔ عمران نے کھانے سے قبل اُسے شیری پلوائی، نتیجہ کسی حد تک اچھاہی نکلا ۔ روشی کے چہرے پر تازگی کے آثار نظر آنے لگے تھے لیکن پھر بھی کھانا اس کے حلق سے نہیں اُتر رہا تھا اور وہ عمران کو حیرت سے دیکھ رہی تھی جو کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑا تھا جیسے کئی دن سے بھوکا ہوا اور اس کے چہرے پر وہی پرانی حماقت طاری ہوگئی تھی‘‘ تم بہت خاموش ہو‘‘ ۔ عمران نے سر اُٹھائے بغیر روشی سے کہا۔

” کچھ نہیں ۔ کوئی خاص بات نہیں ‘]۔ روشی نے بے دلی سے کہا۔

” تم عورت ہو یا… ذرا مجھے بتاؤ۔ کیا میں اُن کے ہاتھوں مارڈالا جاتا …وہ ہمیں لے جا کر ہماری  چٹنی  بناڈالتے۔”

’’میں اس موضوع پر گفتگو نہیں کرنا چاہتی ‘‘۔ روشی نے اپنی پیشانی رگڑتے ہوئے کہا۔

’’ میں خود نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خود چھیڑتی ہو اور پھر ایسا لگتا ہے جیسے کھا جاؤ گی۔”

” عمران ڈئیر ، سوچو تو اب کیا ہوگا ۔”

’’دوسرا بھی مر جائے گا۔ اور دو چار دن بعد لاشوں کی بد بوپھیلے گی  تو گیراج کا تالا توڑ دیا جائے گا۔ اور پھر پکڑا وہ  جائے گا جس کی وہ کار ہوگی… ہاہا۔۔۔۔‘‘

’’ اور جو تم انہیں اپنی شکل دکھا آئے ہو۔‘‘ روشی بھنا کر بولی۔

’’گیراج والوں کو ؟ ‘‘عمران نے پوچھا اور روشی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ عمران نے کہا۔” مگر وہ لوگ تمہاری مشکل نہیں دیکھ سکے تھے ۔ تم محفوظ ر ہو گی‘‘۔

’’ میں تمہارے لئے کہہ رہی ہوں‘‘ روشی جھپٹ پڑی۔

’’ میری فکر نہ کرو، میں پٹھان ہوں۔ جب تک اس نا معلوم آدمی کا صفایا نہ کرلوں گا۔ اس شہر سے نہیں جاؤں گا۔ ویسے اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا ۔”

” کیوں ؟‘‘ روشی کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔ ” تم میرے ساتھ ر  مبانا چوگی‘‘ عمران ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔

’’ہوں، اچھا‘‘ روشی اٹھتی ہوئی بولی، “چلو لیکن یہ یادر کھنا، تم مجھے آج بہت پریشان کر رہے ہو۔”

وہ دونوں دیگر یئیشن  ہال میں داخل ہوئے ۔ درجنوں جوڑے رقص کر رہے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد عمران اور روشی بھی ان کی بھیٹر میں گم ہو گئے۔