بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

سا ت بجے عمران رو شی کے فلیٹ میں پہنچا ۔ وہ شاید اُسی کاانتظار کر رہی تھی۔عمران کو دیکھ کراُس نے برا  سا منہ  بنا یا اور جھلائے ہو ئے  لہجے میں بولی’’اب آ  ئے ہو ،صبح  کے گئے ہو ئے۔میں نے لنچ پرتمہارا انتظار کیا  ،شام کو کا فی دیرتک  چا ئے لئے بیٹھی رہی۔‘‘

’’میں دوسری  روڈ کی ایک بلڈنگ میں تمہارا فلیٹ تلا ش کر رہا تھا۔‘‘عمران نے سر کھجا تے ہو ئے جواب دیا۔

’’دن بھر کہاں غا ئب رہے؟‘‘

’’اُسی مردود کو تلاش کر تا رہا جس سے ابھی دو پیکٹ وصول کر نے ہیں۔‘‘

’’اپنی زندگی خطرے میں نہ ڈالو ۔میں تمہیں کس طرح   سمجھاؤ ں۔‘‘

’’میراخیال ہے کہ وہ اے ۔بی ۔سی  ہو ٹل میں ضرور  آتا  ہو گا ۔‘‘

’’بکواس نہیں بند کر و گے تم ۔‘‘روشی اُسے جھنجھوڑ تی  ہو ئی بولی ۔‘‘تمل ہو ٹل سے اپنا سا ما  ن کیوں نہیں لائے؟‘‘

’’ساما ن …دیکھا جا ئے  گا ۔چلو کہیں  ٹہلنے چلتی ہو۔‘‘

’’میں نے آ ج دروازے کے باہر قدم بھی نہیں نکالا ۔‘‘رو شی نے کہا۔

’’کیوں…؟‘‘

’’خوف معلوم ہو تا ہے۔‘‘

عمران ہنسنے لگا پھر اُس نے کہا ۔’’وہ صرف رات کا شہزادہ معلوم ہو تا ہے،دن کا نہیں۔‘‘

’’کچھ بھی ہو…مگر…‘‘رو شی کچھ کہتے کہتے رُ ک گئی ۔اُس نے پلٹ کر خو فزدہ نظروں سے دروازے کے طرف دیکھا اور آہستہ سے بولی۔‘‘دروازہ مقفل کردو۔‘‘

’’اوہ…بڑی ڈرپوک ہو تم ‘‘۔عمران پھر ہنسنے لگا۔

’’تم بند تو کردو…پھر میں تمہیں ایک خاص بات بتاؤں گی۔‘‘

عمران نے دروازہ بند کرکے چٹخنی چڑھا دی ۔رو شی نے اپنے بلاؤز کے گر یبان میں ہا تھ ڈال کر  ایک لفا فہ  نکالا  اور عمران کی طرف  بڑھاتی  ہو ئی  بولی۔‘‘ آ ج تین  بجے ایک لڑکا لا یا تھا ،پھر لفا فہ چاک کر نے سے  قبل ہی  وہ بھا گ گیا۔‘‘

عمرا ن نے لفا فے سے خط نکال  لیا۔انگریزی کے ٹا ئپ میں تحریر تھا۔

’’روشی۔۔۔۔۔!

’’تم مجھے نہ جا نتی ہو گی لیکن میں تم سے اچھی طرح وا قف ہوں۔اگر تم  اپنی خیریت چا ہتی ہو تو  مجھے اُس آدمی کے متعلق سب کچھ بتا دو جو  پچھلی رات تمہا رے  ساتھ تھا۔یہ کون ہے؟کہاں سے آیا ہے؟کیوں آیا ہے؟تم یہ سب  کچھ مجھے فون پر بتا سکتی ہو۔ میرا فو ن نمبر سکس نا ٹ ہے۔ میں تمہیں معاف کر دو ں گا ۔ٹیرر۔‘‘

’’بہت خوب‘‘۔ عمرا  ن سر ہلا کر بو لا ۔‘‘فو ن پر گفتگو کرے گا۔‘‘

’’مگر سنو تو …میں نے ساری  ٹیلیفو ن ڈا ئر کٹری چھان  ماری ہے  مگر مجھے یہ نمبر کہیں نہیں ملا۔‘‘

’’تمہا رے پاس  ڈا ئرکٹری ہے؟‘‘عمرا ن نے پو چھا۔

’’نہیں پڑوس میں  ہے اور فون  بھی ہے۔‘‘

’’ذرا لاؤ تو ڈائر کٹری ۔‘‘عمران نے کہا۔

’’تم بھی سا تھ چلو۔‘‘

’’اوہ۔۔۔۔۔چلو‘‘۔

وہ دروازہ کھول کر با ہر نکلے ۔رو شی برابر والے فلیٹ میں چلی گئی  اور عمرا ن باہر اُس کا انتظار  کر تا رہا ۔شاید پانچ منٹ بعد رو شی  وا پس آگئی ۔وا پسی پر رو شی نے  بہت احتیا ط سے دروازہ بند کیا ۔ڈائرکٹری میں سکس نا ٹ کی تلاش شروع ہو گئی ۔یہ نمبر کہیں نہ ملا۔

’’مجھے تو یہ بکواس ہی معلوم ہو تی ہے‘‘روشی نے کہا۔‘‘ ہو سکتا ہے کہ یہ خط کسی اور نے مجھے  خو فزدہ کر نے کے لئے بھیجا ہو۔‘‘

’’مگر ا ن وا قعات سے اور کون وا قف ہے۔؟‘‘

’’کیوں…کل جب تم پر حملہ  ہوا ہے تو ہو ٹل میں دورجنوں آدمی  موجود تھے اور ظاہر  ہے کہ  تم ہی مجھے اپنے  کا ندھے سر اُٹھا کر ہو ٹل تک لے گئے تھے… پھر تم میرے  ہی پاس سے اُٹھ کر جوئے خا نے  میں بھی گئے تھے۔‘‘

عمران خا موش رہا۔وہ کچھ  سوچ رہا تھا ۔پھر چند لمحے بعد اُس نے کہا ۔’’ہم اس وقت کا کھا نا  کسی شا ندار ہو ٹل  میں کھا ئیں  گے۔‘‘

’’پھر وہی  پا گل پن ،نہیں…ہم اس وقت کہیں نہ جا ئیں گے۔‘‘ رو شی نے سختی سے کہا۔

’’نہیں چلنا پڑے گا ۔‘‘عمران  نے کہا ۔’’ ورنہ مجھے رات بھر نیند نہ آئے گی۔‘‘

’’کیوں …نیند کیوں نہ آئے گی؟‘‘

کچھ نہیں ’’عمران  سنجید گی سے بو لا ۔‘‘بس یہی سوچ کر کڑ ھتا رہوں گا کہ تم میری ہو کون جو میرا کہنا  مان لو گی۔‘‘

رو شی اُسے غور سے  دیکھنے لگی ۔‘‘کیا وا قعی تمہیں اس سے دُکھ پہنچے گا۔؟‘‘اس نے آہستہ سے کہا ۔

’’جب  میری کوئی  خوا ہش نہیں پوری ہو تی تو میرا دل  چا ہتا ہے کہ خوب  پھو ٹ پھوٹ کر  روؤں۔‘‘عمران  نے بڑی معصومیت سے کہا۔

روشی پھر اُسے غور سے دیکھنے لگی۔عمرا ن کے چہرے  پر حما قت پھیل گئی تھی۔‘‘اچھا میں چلو ں گی ۔‘‘ رو شی  ے آہستہ  سے کہا  اور عمرا ن کی آنکھیں مسرور  بچوں کی آنکھوں کی طرح چمکنے لگیں۔

تھوڑی دیر بعد رو شی  تیار ہو کر  نکلی اور عمران کو اس طرح دیکھنے  لگی جیسے اپنے حسن کی  داد طلب کر رہی ہو۔عمرا ن  نے بُرا سا منہ بنا کر  کہا۔’’تم سے اچھا میک اَپ تو میں کر سکتا ہوں۔‘‘

’’تم …‘‘روشی نے کہا۔

’’ہاں کیوں نہیں…اچھا پھر سہی ۔اب ہمیں باہر چلنا چا ہئے۔‘‘

’’تم خواہ مخواہ مجھے چڑاتے ہو‘‘رو شی نے  کہا۔

’’افسوس کہ تمہیں اردو نہیں آتی ،ورنہ  میں۔

اُن کو آتا ہے پیا ر پر غصہ

ہم ہی کر بیٹھے  غا لؔب  پیش دستی ایک دن

’’چلو بکواس مت کرو‘‘۔ وہ عمران  کو دروازے کی طرف دھکیلتی  ہو ئی بولی۔

رو شی  اس وقت سچ مچ بہت حسین نظر آرہی  تھی۔عمران نے نیچے  اُتر کر ایک ٹیکسی لی  اور وہ وہائٹ ماربل  کے لئے  روانہ ہو گئے۔یہ یہاں کا سب سے بڑا اور شاندار ہو ٹل تھا۔

’’روشی ،کیوں نہ میں اُسے  فون  کروں‘‘عمران بولا۔

’’مگر ڈا ئر کٹری میں نمبر کہاں ملا ۔نہیں ڈیئر ، کسی نے مذاق کیا ہے،مجھ سے ؟‘‘

’’میں ایسا نہیں سمجھتا ۔‘‘

’’تمہا ری سمجھ ہی کب اس قا بل  ہے کہ  کچھ کچھ  سمجھ سکو ،تمہا را نہ سمجھنا ہی اچھا ہو تا ہے۔‘‘

’’میں کہتا ہوں تم سکس نا ٹ پر ڈائیل  کرو۔اگر جواب نہ ملے تو اپنے کان اُکھا ڑ لینا …ارے  نہیں ،میرے  کان۔‘‘

’’مگر میں کہو ں گی کیا۔؟‘‘

’’سنو …راستے میں کسی  پبلک  بو تھ سے فون کر یں گے۔تم کہنا کہ وہ  ایک پا گل رئیس زادہ  ہے۔ کہیں باہر سے آیا  ہے لیکن آج ایک مشکل  میں پھنس گیا تھا ۔رشوت  دے کر بڑی دشوا ریوں سے جان چھڑا ئی ۔اُس کے پاس غلطی  سے کچھ  جعلی  نو ٹ آگئے ہیں۔جنہیں استعمال  کر تا  ہوا آج پکڑ ا گیا تھا۔‘‘

’’جعلی نو ٹ…‘‘رو شی  نے گھبرا کرکہا۔

’’ہاں رو شی  ،یہ درست ہے ‘‘ عمران نے درد ناک  لہجے میں کہا  ’’آج میں بال  بال  بچا۔ور نہ  جیل  میں ہو تا ۔میرے  نو ٹوں میں کچھ  جعلی  نو ٹ  مل گئے  ہیں۔میں نہیں جا نتا کہ وہ   کہاں سے آئے ہیں‘‘

’’کہیں وہ انہی پیکٹوں سے تعلق ر کھتے  ہوں،جو تم  نے اُس سے پچھلی  رات چھپنے تھے۔‘‘

’’پتہ  نہیں‘‘عمران ما یو سہ انداز  میں سر ہلا  کر بولا ‘‘ مجھ  سے  حما قت یہ ہو ئی  کہ میں  نےاُن نو ٹوں کو دو سرے نو ٹوں میں ملا دیا ہے۔‘‘

’’تم مجھے سچ کیوں نہیں بتا تے کہ تم کون ہو ‘‘رو شی  بھنا کر  بو لی۔

’’میں  نےسب  کچھ  بتا دیا ۔روشی‘‘

’’یعنی  تم وا قعی  احمق ہو۔‘‘

’’تم  بات بات  پر میری  تو ہین  کر تی ہو۔‘‘عمران بگڑ گیا ۔

’’ارے نہیں…نہیں‘‘روشی  اس کے سر پر ہا تھ  پھیرتی ہو ئی بولی  ۔‘‘ اچھا  جعلی  نو ٹوں کا کیا مطلب ہے؟‘‘

’’میں تو کہتا ہوں کہ  یہ  اُسی  لڑکی  کی حرکت  ہے  جو مجھے  ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ  روم ملی تھی ۔اُس نے اصلی  نو ٹو ں کے پیکٹ غائب  کر کے جعلی  نو ٹ رکھ  دیئے  اور پھر  مجھے  اے ۔بی ۔سی  ہو ٹل  آنے کی دعوت دی۔میرا دعوٰی ہے کہ وہ اُسی نا معلو م آدمی  کی ایجنٹ تھی اور اب  میں یہ سوچ رہا ہوں کہ پچھلی  رات  میں نے  جو پیکٹ  چھینے ہیں وہ دراصل  میں نے  چھینے  نہیں بلکہ وہ خود ہی   میرے حو الے  کر گیا ہے،جا نتی ہو اس کاکیا مطلب  ہوا…یعنی   جو پیکٹ اب بھی  اُس کے پاس  ہیں وہ اصلی  نو ٹوں  کے ہیں …یعنی  وہ پھر مجھ  سے اصلی ہی نوٹ  لے گیا  ہے اور  جعلی  میرے  سر پر پٹخ گیا۔‘‘

’’اچھا وہ نوٹ جو تم جوئے میں ہار گئے تھے ؟ ‘‘روشی نے پوچھا۔

’’ اُن کے بارے میں بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، ہو سکتا ہے کہ جعلی ہوں یا اُن میں بھی ایک آدھ پیکٹ اصلی نوٹوں کا چلا گیا ہو ۔ اب تو اصلی اور نقلی مل جل کر رہ گئے ہیں۔ میری ہمت نہیں پڑتی کہ اُن میں سے کسی نوٹ کو ہاتھ لگاؤں۔”

’’مگر اس لڑکی نے تمہارے نوٹ کس طرح اُڑائے ہوں گے؟”

’’اوہو …‘‘ عمران کی آواز پھر درد ناک ہوگئی ” میں بڑاہی بدنصیب آدمی ہوں بلکہ مجھے یقین آگیا ہے کہ احمق بھی ہوں ۔تم ٹھیک کہتی ہو ۔ ہاں، تو کل صبح سردی زیادہ تھی نا …میں نے السٹر پہن رکھا تھا۔ اور پندرہ بیسں پیکٹ اُس کی جیبوں میں ٹھونس رکھے تھے ۔”

’’تم احمق سے بھی کچھ زیادہ معلوم ہوتے ہو۔‘‘ روشی جھلا کر بولی۔

’’ نہیں… سنو تو۔ میں نے اپنی دانست میں بڑی عقلمندی کی تھی ۔ ایک بار کا ذکر ہے۔ میرے چچا سفر کر رہے تھے۔ اُن کے پاس پندرہ ہزار روپے تھے جو انہوں نے سوٹ کیس میں رکھ چھوڑے تھے۔ سوٹ کیس راستے میں کہیں غائب ہو گیا۔ تب سے میرا یہ حال ہے کہ ہمیشہ سفر میں ساری رقم اپنے پاس رکھتا ہوں۔ پہلے بھی ایسا دھوکہ نہیں کھایا یہ پہلی چوٹ ہے ۔‘‘

’’لیکن آخر اس لڑکی نے تم پر کس طرح ہا تھ صاف کیا تھا۔‘‘

’’یہ  مت پو چھا ۔میں بالکل اُلّو ہوں۔‘‘

’ارے اُس نے مجھے  اُلّو بنا یاتھا  ۔کہنے لگی  کہ تمہا ری  شکل میرے  دوست سے بہت ملتی ہے جو پچھلے سال  ایک حا ثے کا شکار ہو کر مر گیا اور میں اُسے بہت  چا ہتی  تھی۔بس پندرہ منٹ میں بے تکلف  ہو گئی۔میں کچھ  مضمحل  سا تھا ۔کہنے لگی۔کیا  تم  بیما ر ہو۔ نہیں سر میں درد ہو رہا ہے… بو لی لاؤ چمپی کر نے کر دوں ۔چمپی  سمجھتی  ہو؟‘‘

’’نہیں، میں نہیں جائی”۔ روشی نے کہا۔

عمران اس کے سر پر چمپی کرنے لگا۔

’’ہٹو… میرے بال بگاڑ رہے ہو ۔ روشی نے اس کا ہاتھ جھٹک  دیا۔

’’ہاں تو وہ چمپی کرتی رہی اور میںویٹنگ  روم کی آرام کرسی پر سوگیا …پھر شاید آدھے گھنٹے کے بعد آنکھ کھلی۔ وہ برا برہے چمپی  کئے جارہی تھی… سچ کہتا ہوں، وہ اُس وقت مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسی طرح ساری زندگی چمپی  کئے جائے… ہائے… پھر وہ اے۔ بی ۔سی ہوٹل میں ملنے کا وعدہ کر کے مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی ۔‘‘ عمران کی آواز تھرا گئی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دواب رو دے گا ۔

’’ ہا ئیں بدھو ،تم اس کے لئے رور ہے ہو جس نے تمہیں لوٹ لیا۔‘‘ روشی ہنس پڑی۔

’’ ہا ئیں۔ میں رورہا ہوں‘‘ عمران اپنے دونوں گالوں پر تھپڑ مارتا ہوا بولا ‘‘نہیں میں غصے میں ہوں ۔ جہاں بھی ملی اُس کا گلا گھونٹ دوں گا۔۔۔۔‘‘

’’بس کرو میرے شیر، بس کرو ۔‘‘ روشی اس کا شانہ تھپکتی ہوئی بولی۔

’’اب تم میرا مذاق اُڑا رہی ہو۔‘‘ عمران بگڑ گیا۔

’’ نہیں، مجھے تم سے ہمدردی ہے لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ اگر جوئے میں بھی تم جعلی نوٹ ہارے ہو تو اب میرا وہاں سے گزر نہیں ہوگا۔ کچھ تعجب نہیں کہ مجھے اس کے لئے بھگتنا بھی پڑے۔‘‘

’’ نہیں، تم پرواہ نہ کرو ۔تمہارا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ میں لاکھوں روپے خرچ کروں گا۔”

 روشی کچھ نہ بولی۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔

’’میرا خیال ہے کہ یہاں ایک ٹیلیفون ہوتھ ہے‘‘ عمران نے کہا اور ڈرائیور سے بولا۔ ’’گاڑی روک دو۔”

ٹیکسی رُک گئی ۔ روشی اور عمران نیچے اتر گئے ۔ بوتھ خالی تھا۔ روشی نے ایک بار پھر عمران سے پوچھا کہ اُسے کیا کہنا ہے۔ عمران نے اس سلسلے میں کچھ دیر قبل کہے ہوئے جملے دہرائے ۔ روشی نے فون میں سکے گرائے اور نمبر ڈائیل کرنے لگی… اور پھر عمران نے اس کے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھے۔

 وہ ایک ہی سانس میں وہ سب کچھ دہرا گئی جو عمران نے بتایا تھا۔ پھر خاموش ہو کر شاید دوسری طرف سے بولنےو الے کی بات سننے لگی ۔ ’’دیکھئے‘‘ اُس نے تھوڑی دیر بعد ماؤتھ پیس  میں کہا ’’مجھے جو کچھ بھی معلوم تھا، میں نے بتا دیا،اس سے  زیادہ میں کچھ بھی نہیں جانتی، ویسے مجھے اس کے متعلق تشویش ہے کہ اس کی اصلیت کیا ہے۔ بظا ہر بے وقوف اور پا گل معلوم ہوتا ہے ۔‘‘

’’آیا کہاں سے ہے؟ ‘‘دوسری طرف سے آواز آئی ۔

’’ وہ کہتا ہے کہ دلاور پور سے آیا ہوں۔”

’’کیا وہ اس وقت بھی تمہارے پاس موجود ہے ؟”

’’نہیں ،باہر ٹیکسی میں ہے۔ میں ایک پبلک بوتھ سے بول رہی ہوں۔ اس سے بہا نہ کر کے آئی ہوں کہ  ایک سہیلی تک  ایک پیغام پہنچانا ہے۔‘‘

’’کل رات سے قبل بھی اُس سے کبھی ملاقات ہوئی تھی ؟‘‘

’’نہیں، کبھی نہیں‘‘ روشی نے جواب دیا۔

” کیا اُسے میرا خط دکھایا تھا؟“

’’ نہیں کیا دکھا دوں؟‘‘ روشی نے پوچھا لیکن اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا تھا۔روشی  نے ریسیور رکھ دیا۔ عمران نے فورا ہی انکوائری کے نمبر ڈائل کئے۔

“ہیلو۔ انکوائری۔ ابھی پلک بوتھ نمبر چھیالیس سے کسی کے نمبر ڈائیل کئے گئے تھے۔ میں اس کا پتہ چاہتاہوں ۔”

’’آپ کون ہیں؟“

’’میں ڈی۔ایس۔ پی سٹی ہوں ۔‘‘ عمران نے کہا۔

’’اوہ… شاید آپ کو غلط نہیں ہوئی ہے‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔‘‘ چھیالیسویں بوتھ سے تقریبا آدھے گھنٹے سے کوئی کال نہیں ہوئی۔‘‘

’’اچھا …شکریہ‘‘ عمران نے ریسیور رکھ دیا اور دونوں بوتھ سے باہر نکل آئے ۔

” تم ڈی۔ ایس پسی سٹی ہو’‘ روشی ہنسنے لگی۔

’’اگر یہ نہ کہتا تو وہ ہرگز کچھ نہ بتاتا ‘‘عمران نے کہا۔

’’لیکن اُس نے بتایا کیا ؟”