بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

عمرانٹھیک  ایک   بج کر ڈیڑھ منٹ   پر  سپر  نٹنڈنٹ کے آفس میں داخل  ہوا اور سپر نٹنڈنٹ  اپنے سا منے ایک نو عمر آدمی  کو کھڑا  دیکھ کر پلکیں جھپکا نے لگا ‘‘ تشر یف  ر کھئے … تشریف رکھئے ‘‘اس نے تھو ڑی دیر بعد کہا۔

’’شکریہ  ‘‘عمرا  ن بیٹھتا ہوا بولا ۔اس وقت  اس کے چہرے پر حما قت نہیں برس رہی تھی ۔وہ ایک  اچھی  اور جا نب  تو جہ شخصیت  کا مالک  معلوم ہو رہا تھا ۔

’’بہت انتظار کر ا یا آپ نے ‘‘سپر نٹنڈنٹ  نے اس  کی طرف  سگریٹ  کا ڈبہ بڑھا تے ہوئے کہا۔

’’شکریہ ۔میں سگریٹ کا عا دی نہیں ہوں‘‘عمران نے کہا ‘‘ دیر سے ملا قات کی وجہ یہ ہےکہ میں مشغول تھا ۔اب تک اپنے  طور پر  حا لا ت کا جا ئزہ لیتا رہا ہوں‘‘۔

’’میں پہلے ہی جا نتا تھا ‘‘سپر نٹنڈ نٹ  ہنسنے لگا ۔

’’نو ٹوں کے  متعلق  کچھ معلوم ’’ہوا؟‘‘

’’ابھی تک تو کو ئی رپورٹ نہیں ملی ،لیکن…‘‘

’’نو ٹو ں کے متعلق  پو چھنا  چا ہتے ہیں آپ‘‘عمران مسکرا کر بولا ۔

’’ہاں ،اپنی  معلو مات  کے لئے جا ننا  چا ہو  ں گا۔‘‘

’’اس آدمی کے پاس جعلی نو ٹوں کے دو پیکٹ ہیں اور یہ  میرے ذریعہ سے اس  کے پاس پہنچے ہیں‘‘

’’آپ کے ذریعہ سے؟سپر نٹنڈنٹ  کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔‘‘

’’جی ہاں ۔میں دیدہ ودا نستہ  کل رات کو اُس خطر ناک علاقے میں گیا تھا اور میری  جیبوں میں جعلی نو ٹوں کے پیکٹ تھے۔‘‘

’’ارے تو کیا آ ج اخبار  میں آپ ہی کے  متعلق  خبر تھی؟‘‘

’’غا لباً …‘‘

’’لیکن یہ ایک خطر ناک قدم تھا۔‘‘

’’ہاں… بعض اوقا ت اس کے  بغیر کام بھی  تو نہیں  چلتا…مگر  اُس سے ٹکرانے کے  بعد اب میں نے اپنا  خیال  بدل  دیا ہے ۔وہ جعلی  نوٹ بازار  میں نہیں آسکیں گے۔ وہ تو  بس یو ں ہی احتیا طاً میں نے آپ کو اطلا ع دے دی تھی ۔وہ بہت  چا لاک  ہے اور اس قسم کے حربے  اس پر کام نہیں کر سکتے ‘‘۔

سپر نٹنڈنٹ خا موشی  سے عمران  کی صورت  دیکھ  رہا تھا ۔

’’سوال یہ ہے کہ   رات  کو وہ علا قہ خطر ناک  کیوں ہو جا تا ہے؟‘‘عمرا ن بڑبڑا یا ‘‘ظا ہر ہے کہ سرکا ری طور پر وہاں سڑک ہی پر خطرے سے ہو شیار  کر نے  کے لئے بو رڈ لگا دیا ہے۔ اس لئے  عام طور پر  وہ را ستہ  آمد رفت کے لئے  بند ہو گیا  ہے۔لیکن اس کے باو جود         بھی مجھ جیسے بھو لے بھٹکے آدمی پر حملہ کیا گیا ۔اس کا  مطلب تو یہ ہوا کہ ساری  رات وہاں اس کی حکو مت رہتی ہے۔‘‘

’’جی ہاں۔قطعی یہی بات ہے اور اسی  لئے وہا ں   خطرے کا بو رڈ لگا یا گیا  ہے… لیکن  مقصد  جنا ب !آخر اُس  اُجا ڑ علا قے میں ہے  کیا ؟ اگر کہا جا ئے  کہ وہ  اُجا ڑ علا قہ لیٹروں کا اڈہ   ہے تو یہ سو چنا  پڑے گا  کہ اے۔بی سی  ہو ٹل پر کبھی  حملہ کیوں نہیں ہو تا۔وہاں  ہزاروں  رو پے کا  جوا ہو تا ہے ۔شبہ تو ہمیں  بھی  ہے کہ  اے ۔بی ۔سی وا لوں کا  اُس سے کو ئی نہ کو ئی  تعلق  ضرور ہے لیکن ہم ابھی  تک ان کے خلاف  کوئی  ثبوت نہیں فراہم  کر سکے  ہیں۔‘‘

عمران کچھ نہ بو لا !اُس نے جیب  سے چیو نگم (chewing gum)کا پیکٹ نکا لا اور اُس  کا کاغذ پھا ڑ کر  ایک  پیس سپر نٹنڈنٹ کو بھی پیش کیا  جو بو کھلا ہٹ میں شکریئے  کے ساتھ  قبول کر لیا گیا  لیکن پھر سپر نٹنڈنٹ کے چہرے پر ندا مت  کی ہلکی کچل رہا تھا ۔تھوڑی  دیر  بعد اس نے کہا ۔اس وا قعہ  کا تذ کرہ  آپ ہی  تک  محدود ہے تو بہتر ہے ۔‘‘

’’ظاہر  ہے۔‘‘سپر نٹنڈنٹ بولا ۔اس نے چیو نگم  کو عمرا ن کی نظر  بچا کر  میز  کی  دراز میں  ڈال دیا تھا۔

’’آپ کا قیام کہاں ہے؟‘‘ سپر نٹنڈنٹ نے پو چھا ۔

’’کسی ہو ٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں‘‘عمران نے جواب  دیا۔

سُپر نٹنڈنٹ نے پھر کچھ اور  پو چھنا  منا سب  نہ سمجھا ۔چند لمحے خا مو شی  رہی  اس کے بعد  سپر نٹنڈنٹ بو لا ‘‘۔ آپ کو اسسٹ کر نے  کے لئے  میں  نے ایک  آدمی  منتخب کر لیا ہے۔کہئے تو ابھی ملا دوں‘‘۔

’’نہیں فی الحال ضرورت نہیں ،آپ مجھے  نام اور پتہ لکھو ا دیجیئے پتہ  ایسا ہو نا چا ہئے ۔جہاں سے   ہر وقت  را بطہ قا ئم کیاجا سکے ویسے میری  کو شش  یہی  رہے  گی کہ آپ  لو گوں کو زیادہ  تکلیف  نہ دوں۔‘‘

آخری  جملہ  شاید سپر نٹنڈنٹ  کو گراں گزرا تھا  ۔اُس کے چہرے پر سر خی پھیل گئی  لیکن  وہ کچھ   بو لا نہیں ۔عمران تھو ڑی دیر تک  غیر ارادی  طور پر   اپنی ٹا نگیں  ہلا تا رہا ۔پھر مصا فحے کے لئے  ہاتھ  بڑ ھا تا ہو ا بولا ‘‘اچھا  بہت  بہت  شکریہ۔

’’اوہ …اچھا  لیکن اگر  آج آپ شام  کو کھا نا  میرے سا تھ  کھا ئیں  تو کیا  ہرج  ہے۔‘‘

’’ضرور کھا ؤں گا ۔‘‘عمران مسکرا کر بو لا ’’مگر آج نہیں ،ویسے  مجھے آپ  کے تعاون کی اشد ضرورت ہو گی۔‘‘

’’ہماری   طرف  سے آپ مطمئن رہیں۔‘‘

’’اچھا ‘اجا زت دیجیئے ‘‘۔ عمران کمرے سے  نکل گیا اور سپر نٹنڈنٹ بڑی دیر تک  خا مو ش بیٹھا اور سر ہلا تا رہا …پھر اُس نے میز کی  دراز کھول کر عمران کی دی ہو ئی چیو نگم  نکالی اور ادھراُدھر دیکھ  کر اُسے  منہ میں ڈال لیا۔