شا داب نگر کے محکمہ سر اغر سانی کے دفتر میں سب انسپکٹر جاوید کی خاصی دھاک بیٹھی ہو ئی تھی۔وہ ایک ذہین اور نوجوان افسر تھا ۔تعلق تو اس کا محکمہ سراغررسانی سےتھا لیکن اُس کے بے تکلف دو ست عمو ماً اُسے تھا نے دار کہا کرتے تھے۔وجہ یہ تھی کہ وہ ذہن کے ساتھ ہی ساتھ ڈنڈے کے ا ستعمال کو بھی کافی اہمیت دیتا تھا۔اس کا قول تھا کہ آج تک ڈنڈے سے زیادہ خوفناک سراغ رساں اور کوئی پیدادا ہی نہیں ہوا ۔اکثر وہ صرف شبہے کی بنا ء پر مجرموں کی ایسی مرمت کرتا کہ انہیں چھٹی کا دودھ یا د آجا تا۔
وہ کا فی لحیم شحیم آدمی تھا ۔ بہتر ے تواس کی شکل ہی دیکھ کر اقرار جرم کر لیتے تھے،مگر وہ شاداب نگر کے اُ س مجرم کی جھلک بھی نہ دیکھ سکا تھا۔جس نےبندرگاہ کے علاقے میں بسنے والوں کی نیند یں حرام کر رکھی تھیں۔
اُس وقت سب انسپکٹر جاوید اپنے محکمے کے سپرنٹنڈ نٹ کے آفس میں بیٹھا ہوا غا لباًًاس بات کا منتظر تھا کہ سپر نٹنڈنٹ اپنا کام ختم کر کے اُس کی طرف متو جہ ہو۔
سپر نٹنڈنٹ سر جھکائے کچھ لکھ رہا تھا۔تھو ڑی دیر بعد قلم رکھ کر اُس نے ایک طو یل انگڑا ئی لی اور جاوید کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا ۔’’بھئی میں تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ تمہیں عمران صاحب کو اسسٹ کر نا ہو گا ۔اس سے بڑی بے بسی اور کیا ہو گی ہمیں سنیڑل والوں سے مدد طلب کر نی پڑی ہے‘‘۔
’’عمران صاحب !‘‘جاوید نے حیرت سے کہا ’’وہی لی– یو کا وا لے کیس کا شہرت ہا فتہ؟‘‘
’’وہی…وہی….‘‘سپرنٹنڈ نٹ سر ہلا کر بولا ۔’’وہ حضرت یہاں پر سوں تشریف لائےہیں اور ابھی تک اُ ن کی شکل نہیں دکھا ئی دی۔یہ سینٹرل والے بڑے چا لاک ہو تے ہیں ۔اس کا خیال رہے کہ ڈپارٹمنٹ کی بد نامی نہ کرانا ۔یہاں تمہارے علاوہ اور کسی پرمیری نظر نہیں پڑی‘‘۔
’’آپ مطمئن رہیئے،میں حتی الا مکان کو شش کروں گا۔‘‘
’خود سے کسی معا ملے میں پیش پیش نہ رہنا ۔ جو کچھ وہ کہے وہی کرنا‘‘۔
’’ایسا ہی ہو گا…‘‘
فون کی گھنٹی بجی اورسپر نٹنڈنت نے ر یسیوار اُٹھایا ۔’’ہیلو،…اوہ آپ ہیں…جی…جی.اچھا ٹھہریئے ۔ایک سکینڈ ‘‘سپر نٹنڈ نٹ نے پنسل اُ ٹھا کر اپنی ڈا ئری میں کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ریسیور بد ستور اس کے مکان سے لگا رہا ۔کچھ دیر بعد اُس نے کہا۔’’توآپ مل کب ر ہے ہیں…جی…اچھا ، اچھا بہت بہتر ‘‘ اس نے ریسیور دکھ دیا اور کر سی کی پشت سے ٹک کر کچھ سو چنا۔
’’دیکھوجا وید وہ تھوڑی دیر بعد بولا‘‘ عمران صا حب کا فون تھا ۔اُنہوں نے کچھ جعلی نو ٹوں کے نمبر لکھوائے ہیں اور کہا ہے ان نمبروں پر کڑی نظر رکھی جائے جس کے پاس بھی ا ن میں کا کوئی نو ٹ نظر آئے اُسے بے ذریغ گر فتار کر لیا جا ئے ۔ان نمبروں کو لکھ لو…مگراس کا مقصد کیا ہے،یہ میں بھی نہیں جا نتا۔‘‘
’’وہ یہاں کب آ ئیں گے؟‘‘ جا وید نے پو چھا ۔
’’ایک بج کرڈیڑمنٹ پر۔بھئی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے ،ویسے سناجا تا ہے کہ آفیسر آن اسپیشل ڈیو ٹینر ہے اور اس نے اپنا سیکشن با لکل الگ بنا یا ہے جو براہ را ست ڈائر کٹر جنرل سے تعلق رکھتا ہے‘‘۔
’’میں نے سنا ہے کہ ڈ ائر کٹر جنرل صاحب اُن کی والد ہیں‘‘۔
’’ٹھیک سنا ہے …مگر یہ کیا لغویت ہے ۔ایک بج کر ڈیڑھ منٹ…‘‘