بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’اب تمہارے پاس کتنی رقم ہے؟‘‘

’’شاید ایک چو نی …رقم کی فکر نہ کرو ۔میں ایک ایک پائی وصول کر لوں گا۔‘‘

’’کس سے…؟‘‘

’’جس نے چھینی ہے،اُس سے‘‘

’’طوطے ،تم بالکل گدھے ہو‘‘رو شی ہنسنے لگی ‘‘یہ پتہ نہیں زندہ کیسے ہو۔وہ آدمی ایسے شکاروں کو زندہ نہیں چھوڑتا۔‘‘

’’وہ آخر ہے کون؟‘‘

’’کوئی نہیں جا نتا  ۔پو لیس  والے !اس علاقے میں قدم رکھتے  ہوئے  تھراتے ہیں۔وہ اب تک نہ جا نے کتنے افسروں کو جان سے مار چکا ہے۔‘‘

’’ہو سکتا ہے…مگر میں اپنے روپے وصول کر لوں گا۔‘‘

’’کس طرح بڈھے طوطے؟‘‘

’’کل سر شام  ہی ان جھاڑیوںمیں چھپ جاؤں گا‘‘

رو شی بے تحاشہ ہنسنے لگی‘‘ طوطے تم سچ مچ پاگل ہو‘‘اس نے کہا ۔یہ بتاؤ تمہارا قیام کہاں ہے؟‘‘

’’ہوٹل بنرا سکا میں‘‘

’’لیکن اب تمہاری  حیبیں خالی ہو چکی ہیں۔وہاں کیسے رہو گئے؟‘‘

’’اس کی فکر نہیں ۔وہاں سے کسی خیراتی مسافر خانے میں چلا جاؤ ں گا لیکن بھینسوں کے بغیر وا پسی نا ممکن ہے۔‘‘

روشی خا موشی ہو گئی۔بندرگاہ کے قریب پہنچ کر اُس نے ایک ٹیکسی رکوائی ۔’’چلو بیٹھو‘‘۔

’’مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

’’تو اب تم چا ہتے ہو کہ تمہیں کھا نا بھی کھلاؤں‘‘روشی اُسے ٹیکسی میں دھکیلتی ہوئی بولی ۔وہ دونوں بیٹھ گئے اور ٹیکسی چل پڑی۔

’’تم یہ نہ سمجھو کہ میں مفلس ہوں۔میں نے یہ کہا تھا کہ میری جیب میں ایک  چو نی ہے،لیکن ٹہرو میں اُلّو نہیں ہوں۔پردیس میں اپنا سارا روپیہ ایک جگہ  جمع نہیں رکھتا‘‘

 احمق خاموش ہو کر اپنے جوتے  کافیتہ کھو لنے لگا۔اس نے  دونوں جوتے  اتار دیئے او ر انہیں  اُلٹا  کر کے  جھٹکنے لگا۔دوسرے لمحے میں اُس کے ہاتھ پر نو ٹوں کی گڈیاں تھیں۔’’ یہ ڈھائی ہزار ہیں‘‘احمق نے بڑی سادگی سے کہا۔

’’اگر اب میں انہیں ہتھیالو ں تو؟‘‘روشی مسکراکر بولی۔

’’تم  ہر گز ایسا نہیں کر سکتیں ،میں تمہیں  ڈرادوں گا۔‘‘

’’ڈرادوگے۔؟‘‘

’’ہا ں ۔۔۔۔ میر ے پاس ریوالور ہے ؟،اس آدمی  پر بھی  فائر میں نے  ہی کیا تھا‘‘

’’کیا  تمہارے پاس لائسنس ہے؟‘‘

’’میں لا ئسنس وغیرہ کی پرواہ نہیں کر تا …یہ دیکھو میں جھو ٹ نہیں کہہ رہا ‘‘احمق  نے جیب سے ریوالور نکال کر رو شی کی طرف بڑھا یا  اور رو شی بے تحا شہ ہنسنے لگی۔ریوالور کی چرخی میں پٹاخو ں  کی ریل چڑھی ہو ئی تھی اور وہ ساڑھے چار رو پے  والا ٹوائے ریوا لور تھا۔

’’طوطے ۔‘‘اُس نے سنجیدگی سے کہا’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم آدمیوں کے کس ریوڑ سے تعلق رکھتے ہو۔‘‘

’دیکھو …تم بہت بڑھتی جا رہی ہو‘‘احمق غصے میں بولا…’’ابھی  تک تم مجھے  طو طا کہتی  رہی ہو اور میں کچھ نہیں بولا لیکن اب جا نور کہہ رہی ہو۔‘‘

’’نہیں میں نے جا نور تو نہیں کہا ۔‘‘

’’پھر ریوڑ کا اور کیا مطلب ہو تا ہے ؟بھینسیں میرے ڈیڈی کی ایک کمزوری ہے،میری نہیں‘‘

’’پھر بھی تم طو طے سے  مشا بہت  رکھتے ہو۔‘‘

رو شی  نے چھیڑنے  وا لے انداز میں کہا ۔’’ ہر گز نہیں رکھتا ۔تم  جھوٹی ہو ۔تم اسے ثابت  نہیں کر سکتیں کہ میں طو طے سے  مشا  بہت رکھتا ہوں۔‘‘

’’پھر کبھی ثا بت  کر دوں گی۔ یہ بتا ؤ کہ  تم…‘‘لیکن  جملہ پورا ہو نے سے قبل ہی اُس کی  آواز ایک بے سا ختہ  قسم کی  چیخ میں تبدیل ہو گئی ۔برابر  سے گزرتی  ہو ئی  ایک کار سے فا ئر ہو اتھا۔

’’رو کو …ڈرائیو…رو کو‘‘احمق  چیخا۔

کا ر ایک جھٹکے  کے سا تھ رک گئی  ۔ڈرا ئیور پہلے ہی خو فزدہ  ہو گیا تھا۔ دو سری  کا ر فراٹے  بھرتی ہوئی اندھیر میں گم ہو گئی ۔اس کی عقبی سرخ رو شنی  بھی غائب تھی۔احمق  رو شی پر جھکا ہوا تھا۔

’’عورت …اےعورت آر…لل…لڑکی ‘‘وہ اُسے   جھنجھور رہا تھا ۔روشی  کی آنکھیں کھلی  ہو ئی تھیں  اور وہ  اس طرح ہا نپ  رہی تھی جیسے  گھو نسلے  سے   گرا ہوا چڑیا کا  بچہ ہا نپتا ہے۔عمران  کے جھنجھورنے  پر بھی  اُس کی منہ سے آواز نکلی ’’ارے  کچھ  بولو بھی ۔کیا گولی  لگی  ہے ؟‘‘

رو شی  نے نفی میں سر ہلا دیا۔

اور یہ حقیقت تھی کہ وہ صرف سہم گئی  تھی۔اُس نے قریب سے گزرتی  ہو ئی کار کی  کھڑکی میں شعلے  کی لپک  دیکھ لی تھی اور پھر فا ئر کی آواز سنی تھی۔گولی تو شاید  ٹیکسی کی  چھت پر سے پھسلتی ہوئی دوسری طرف کل گئی تھی۔

’’یہ کیا تھا صاحب ؟‘‘ ڈرا ئیو ر نے سہمی  ہو ئی آواز میں پو چھا۔

’’پٹا خہ …‘‘احمق سر ہلا کر بولا‘‘میرے ایک  شریر  دوست نے  مذاق کیا ہے۔چلو آگے بڑھاؤ ہاں…لیکن اندر کی رو شنی  بجھا دو ورنہ وہ  پھر مذاق کر ے گا۔‘‘پھر وہ رو شی  کا شا نہ  تھپکتا ہو ابولا ’’گھر کا پتہ بتاؤ تا کہ   تمہیں وہاں پہنچا دوں۔‘‘

رو شی سنبھل کر بیٹھ گئی ۔اُس کی سا نسیں ابھی تک  چڑھی  ہو ئی تھیں۔

’’کیا  یہ وہی  ہو سکتا ہے؟‘‘احمق  نے آہستہ  سے پو چھا۔

’’پتہ نہیں‘‘رو شی  ہا نپتی  ہو ئے بولی۔

’’تواب یہ  مستقل  طور پر  پیچھے  پڑگیا؟احمق نے بڑے بھولے  پن سے  پو چھا۔

’’وہ …طوطے ،اب میری زندگی بھی خطرے میں ہے۔‘‘

’’ارے تمہاری  کیوں‘‘

’’وہ پا گل  ہے جس کے پیچھے  پڑ جائے ہر حال میں مار ڈالتا ہے۔ایسے  کیس بھی ہو چکے  ہیں کہ بعض لوگ اُس کے پہلے  حملے سے بچ جا نے کے  بعد دو سرے  حملے  میں مار ے گئے ہیں۔‘‘

’’آخر وہ ہے کو  ن اور کیا  چا ہتا ہے، رو پے  تو چھین چکا ،اب کیا چا ہئے؟‘‘

’’میں نہیں جا نتی کہ وہ کون ہے اور کیا چا ہتاہے۔بہر حال یہ سب  کچھ تمہا ری  حما قتوں کی وجہ  سے ہوا ہے۔‘‘

’’یعنی  تم چا ہتی   ہو کہ میں چپ چاپ مر جا تا ؟‘‘احمق  نے بڑی سادگی سے سوال کیا۔

’’نہیں طوطے …تمہیں اس طرح اپنی امارت کا اظہار نہیں کر نا چا ہیئے تھا۔‘‘

’’مجھے  کیا معلوم تھا کہ   یہاں کے لوگ پچاس ہزار جیسی  حقیر رقم  پر بھی  نظر  رکھ  سکتے ہیں۔‘‘

’’تم  اسے  حقیر رقم کہتے ہو‘‘رو شی  نے حیرت  سے کہا ۔’’ارے میں نے اپنی  سا ری زندگی  میں اتنی رقم  یک مشت نہیں  دیکھی ۔طو طے ،تم  آدمی  ہو  یا ٹکسال …؟‘‘

’’چھو ڑو،اس تذکرے کو…تم  کہہ رہی تھیں کہ تم خود کو خطرے  میں محسوس کر رہی ہو‘‘۔

’’ہاں ،یہ حقیقیت ہے‘‘

’’کہو تو میں یہ رات تمہا رے  ہی ساتھ  گزاروں؟‘‘

’’اوہو طو طے  ،ضرور ..ضرور .ایک بات  میں  نے ضرور مارک کی ہے ۔تم بالکل  طوطے  ہو نے کے باوجود بھی لا پروا ہ اور نڈر ہو لیکن تمہا را یہ ریوالور ابھی تک  میری سمجھ  میں نہیں آسکا ۔‘‘

’’اچھا  تو پھر ،میں تمہا رے  ساتھ ہی   چل رہا ہوں لیکن کیا تمہارے گھر پر کچھ کھا نے  کو مل سکےگا؟‘‘

’’دیکھو…یہ رہا میرا چھو ٹا سا فلیٹ ‘‘روشی نے  کہا۔

وہ دونوں فلیٹ میں داخل ہو چکے تھے  اور احمق اتنے  اطمینان سے ایک صوفے  میں گر گیا تھا جیسی  وہ ہمیشہ  سے یہیں رہتا  آیا ہو۔۔۔۔!

’’یہ مجھےاُس صورت میں اور زیا دہ  اچھا  معلوم ہو گا ۔اگر کھانے  کو کچھ مل  جائے۔‘‘احمق نے سنجیدگی سے کہا۔

’’اس کے لئے  تمہیں میرا ہاتھ  بٹا نا پڑے گا۔میں یہاں تنہا رہتی ہوں۔۔۔۔‘‘

تقریباًایک گھنٹے کے بعد وہ کھا نے  کی میز پر تھے اور احمق  بڑبڑھ کر ہاتھ ماررہا تھا۔’’اب مزہ آرہا ہے‘‘وہ منہ چلا تا  ہو ابولا’’اس ہو ٹل کے کھا نے بڑے واہیات ہو تے ہیں‘‘

’’طو طے …کیا  تم حقیقتاٍایسے ہی ہو،جیسے  نظر آتے ہو؟‘‘وہ اُسےغور سے دیکھنے  لگی۔

’’میں نہیں سمجھا ‘‘احمق نے حیرت کا  اظہار کیا۔

’’کچھ نہیں…میں نے ابھی  تک تمہارا نام  تو پو چھا  ہی نہیں۔‘‘

’’تو اب پوچھ لو…لیکن  مجھے اپنا  نام قطعی  پسند نہیں ہے۔‘‘

’’کیا  نام ہے؟‘‘

’’علی عمران ‘‘

’’کیا کرتے ہو؟‘‘

             ’’خرچ کر تا ہوں۔جب پیسے نہیں ہو تے تو صبر  کرتا ہوں‘‘

’’پیسے  آتے کہاں سے ہیں؟‘‘

’’آہ…‘‘عمران ٹھنڈی سانس لےکر بولا ‘‘۔یہ بڑا بے ڈھب  سوال ہے۔اگر کسی  انٹرویو میں پو چھ لیا جائے  تو مجھے   نوکری  سے مایوس ہو نا پڑے  میں بچپن سے یہی  سو چتا آیاہوں کہ پیسے کہا ں سے آتے ہیں لیکن افسوس آج تک اس کا جواب  نہیں پیدا کر سکا ۔بچپن سے سو چا کرتا تھا  کہ شاید کلدار روپے بسکٹ سے  نکلتے ہیں‘‘

’’بہر حال  تم اپنے متعلق کچھ  بتا نا نہیں چاہتے‘‘

’’اپنے متعلق میں نے سب کچھ بتاد یا ہے لیکن  تم زیادہ تر ایسی  ہی باتیں پو چھ رہی ہو جن کا  تعلق مجھ سے نہیں بلکہ میرے ڈیڈی  سے ہے۔‘‘

’’میں سمجھی …یعنی تم خود کوئی کام نہیں کرتے‘‘۔

’’اُف فوہ…ٹھیک ہے،بالکل ٹھیک بعض اوقات ،میرا دماغ بالکل  غیر حاضر ہو  جاتا ہے۔غا لباً مجھے  تمہارے سوال کا  جواب دینا  چا ہئے تھا ۔ہائے ،اچھا تمہارا کیا  نام ہے؟‘‘

’’روشی…‘‘

’’واقعی  ،تم  صورت ہی سے   رو شی  معلوم ہو تی ہو‘‘

’’کیا مطلب…؟‘‘

’’پھر وہی  مشکل  سوال۔جو کچھ میری زبان سے  نکلتا ہے،اُسے میں  سمجھا  نہیں سکتا۔بس یو  نہی ….پتہ  نہیں کہ کیا بات ہے۔غالباً مجھے یہ کہنا چاہئے تھا کہ تمہارا نام بھی تمہا ری  طرح …کیا ہے..اچھا  بتاؤ کیا  کہیں  گے،بڑی مشکل ہے۔ابھی  وہ لفظ ذہن میں تھا  لیکن غائب  ہو گیا‘‘عمران  بے بسی  سے اپنی پیشانی رگڑنے لگا۔

رو شی  اُسے عجیب نظروں سے  دیکھ رہی تھی ۔اُس کی سمجھ میں نہیں      آرہا تھا کہ اُسے کیا  سمجھے۔نیم دیوانہ  یا کوئی بہت بڑا مکا ر…مگر مکار سمجھنے کے لئے  کوئی  معقول دلیل اُس کے ذہن میں نہیں تھی۔اگر وہ   مکار ہو تا تو اتنی بڑی رقم  اس طرح کیسے  گنو ا بیٹھتا؟

کھا نے  کے بعد وہ میز سے ہٹ کر صو فے  پر آبیٹھے۔

’’اب  آہستہ آہستہ ساری باتیں میر ی سمجھ  میں آر ہی  ہیں۔‘‘عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا’’وہ لڑکی  جو ویٹنگ روم  میں ملی تھی  ۔اُس بد معاش کی ایجنٹ رہی ہوگی…ہاں اور کیا…ورنہ  وہ مجھے اس ہو ٹل  میں کیوں  بلاتی ،مگر جو شی…اَر…کیا نام ہے تمہارا  …اوہ،روشی…روشی وہ لڑکی مجھے اچھی لگتی  تھی اور اب نہ جا نے کیوں،تم اچھی  لگنے لگی  ہو۔مجھے بڑا افسوس  ہے کہ میں نے  تمہارے  کہنے  پر عمل نہ  کیا…کیا تم اب  میری مدد نہ کرو گی ؟‘‘

روشی بڑے  دللآویز انداز میں مسکرا رہی تھی’’میں کس طرح مدد کر سکتی ہوں؟‘‘اُس نے پو چھا۔

’’دیکھو روشی …روشی،واقعی یہ نام  بہت اچھا ہے۔ایسا معلوم ہو تا ہے جیسے  زبان کی نوک مصری  ڈلی سے جا لگی ہو۔روشی …واہ…وا…ہاں تو رو شی میں اپنی  کھو ئی ہو ئی   رقم  وا پس لینا  چا ہتا ہوں‘‘

’’نا ممکن  ہے ،تم  بالکل  بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو تم  نے وہ رقم  بینک میں نہیں  ڈالی تھی کہ وا پس مل  جا ئے  گی۔‘‘

’’کو شش کرے انسان  تو کیا ہو  نہیں سکتا ۔آہا …آہا  کیا  تم نے نپولین کی زندگی کے حا لات نہیں  پڑھے؟‘‘

’’میرے طو طے ‘‘رو شی  ہنس کر بولی۔‘‘تم اتنی جلدی پالے سے باہر کیوں آگئے؟‘‘

’’میں مذاق کے موڈ میں نہیں  ہوں‘‘۔عمران کسی ضدی  بچے کی طرح جھلا   کر بولا۔  

رو شی کی ہنسی  تیزہو گئی۔وہ بالکل اسی طرح ہنس رہی تھی جیسے کسی نا سمجھ بچےکو چڑارہی ہو۔

’’اچھا تو جا رہاہو‘‘عمران بگڑ کر اُٹھتا ہوا بولا۔

’’ٹھہرو…ٹھہرو…‘‘وہ یک بیک سنجیدہ ہو گئی’’چلو بتاؤ کیا کہہ رہے تھے؟‘‘

’’نہیں بتاتا ‘‘عمران بیٹھتا ہو ابولا ‘‘میں کسی سے مشورہ  لئے بغیر ہی نمٹ لوں گا۔‘‘

’’نہیں،مجھے بتاؤ کہ تم کیا کرنا  چا ہتے ہو؟‘‘

’’کتنی بار حلق پھاڑوں کہ میں  اُس سے اپنے رو پے وصول  کر نا  چا ہتا ہوں‘‘

’’خالی خیالی ہے، بچپنا …‘‘رو شی  کچھ  سو چتی  ہو ئی بولی ‘‘اس علا  قے میں پو لیس  کی بھی دال نہیں  گلتی ،آخر تھک ہار کر اُسے وہاں  خطرے کا بورڈ لگانا  پڑا‘‘

’’کیا ہوٹل والے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ؟‘‘عمران  نے پو چھا۔

’’میں وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتی۔‘‘

’’پولیس نے انہیں بھی ٹٹو لا ہو گا‘‘۔

’’کیوں نہیں۔ عرصے  تک اُس ہو ٹل میں پولیس کاایک  دستہ  ،دن اور رات متعین رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ خطر ناک آدمی کام کرہی  گزرتا تھا۔‘‘

’’روشی …روشی ،تم  مجھے باز نہیں رکھ  سکتیں ‘‘عمران ڈائیلاگ بولنے  لگا۔‘‘ میں اس  کا قلع قمع کئے بغیر یہاں سے  واپس نہیں جاؤں گا۔‘‘

’’بکواس  مت کرو‘‘روشی جھنجھلا گئی  پھر اس نے کہا۔جاؤ اس کمرے  میں سو جاؤ بستر صرف ایک ہے۔میں یہاں صوفے  پر ہی  سو جاؤں گی‘‘

’’نہیں۔۔۔۔تم اپنے بستر پر جاؤ۔‘‘میں یہاں صوفے پر سو جاؤں گا‘‘عمران نے کہا۔

اس پر دونوں میں بحث ہو نے لگی آخر کچھ دیر بعد  عمران ہی کو خواب گاہ میں جا نا پڑا اور روشی اسی کمرے میں ایک صوفے  پر لیٹ گئی ۔ہلکی  سردیوں کا زمانہ تھا۔ اس لئے اس نے ایک ہلکا سا کمبل اپنے  پیروں پر ڈال لیا تھا۔وہ اب بھی عمران ہی کے متعلق سو چ رہی تھی لیکن اُس خطر ناک اور گمنام آدمی کا خوف بھی اُس کے ذہن  پر مسلط تھا۔

وہ آدمی کون تھا ؟اس کا جواب شاداب نگر کی پولیس  کے پاس بھی نہیں تھا۔ اس نے اب تک در جنوں وارداتیں کی تھیں لیکن پولیس اُس تک   پہنچنے میں ناکام  رہی تھی۔اور پھر سب سے عجیب بات  تویہ  کہ ایک  مخصوص علا قہ ہی  اُس کی چیرہ دستیوں کا شکار تھا ۔ شہر کے دوسرے حصوں کی طرف شاذ ونادرہی  رخ کر تا تھا۔

رو شی  اس کے متعلق سو چتی اور اُو نگھتی رہی۔اُسے خوف تھا کہ کہیں وہ ادھر ہی کا رخ نہ کرلے  ۔اسی لئے اس نے روشنی بھی  گل نہیں کی تھی۔اس کے ذہن   پر جب بھی  غنودگی طاری ہوتی اسے ایسا محسوس ہو تا  جیسے اس کے مکان  کے پاس کسی نے گولی  چلائی ہو۔ وہ چونک کر آنکھیں کھول دیتی۔

دیوار سے لگی ہوئی گھڑی  دو بجا رہی تھی۔ اچا نک  وہ بوکھلا کر اُٹھ بیٹھی۔نہ جانے کیوں  اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ خطرے میں ہو۔وہ چند لمحے خوفزدہ  نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتی رہی۔پھر صوفے سے اُٹھ کر پنجوں کے بل  چلتی ہوئی اُس  کمرے کے دروازے پر آئی جہاں وہ احمق نوجوان سو رہاتھا۔

 اس نے دروازے پر ہاتھ مار کر ہلکا سا دھکا دیا۔دروازہ کھل گیا  لیکن ساتھ ہی  اُس کی آنکھیں بھی حیرت سے پھیل گئیں۔بستر خالی پڑاتھا  اور کمرے کا بلب رو شن تھا ۔اُس کے دل کی دھڑ کنیں تیز ہوگئیں  اور حلق خشک ہو نے لگا۔اچانک ایک خیال بڑی تیزی  سے اس کے ذہن  میں چکرا کر رہ گیا  ۔کہیں یہ  بیوقوف نوجوان اسی خوفناک آدمی کا کوئی گُر گانہ  رہاہو۔

وہ بے تحاشا پلنگ کے سر ہا نے  رکھی ہوئی تجوری کی طرف لپکی ،اس کا ہینڈل کھینچا تجوری  مقفل تھی  لیکن  وہ سوچنے  لگی کہ  تجوری کی کنجی تو  تکئے کے  نیچے  ہی رہتی  ہے۔ایک بار پھراس کی سانسیں تیز ہوگئیں۔اُس نے  بستراُلٹ دیا ۔تجوری کی کنجی جوں کی توں اپنی  جگہ پر رکھی  ہو ئی ملی  لیکن  روشی  کو اطمینان نہ ہوا۔وہ تجوری کھو لنے لگی …مگر پھر آہستہ آہستہ اس کا ذہنی انتشار کم ہو تا گیا ۔اس کی ساری  قیمتی چیزیں اور نقد رقم  محفوظ تھیں۔پھر آخر وہ کہاں گیا؟وہ تجوری بند کر کے  سیدھی کھڑی ہوگئی پچھلا دروازہ کھول کر  باہر نکلی  اور تب اُسے احساس ہو اکہ وہ اسی  دروازے سے نکل کر گیا ہوگا۔دروازہ مقفل نہیں تھا۔ہینڈل گھماتے ہی کھل گیا تھا۔ دوسری طرف کی راہداری تاریک پڑی  تھی۔وہ باہر نکلنے کی ہمت نہ کرسکی۔اُس  نے دروازہ بند کرکے اندر سے مقفل کر دیا۔وہ پھر اسی کمرے  میں آگئی  جہاں صوفے پر سو ئی تھی۔آخر وہ احمق اس طرح کیوں چلا گیا ؟ وہ سو چتی رہی۔آخر اس طرح بھا گنے کی کیا ضرورت  تھی؟ وہ اُسے  زبردستی تو لائی  نہیں تھی۔وہ خود  ہی آیا تھا…لیکن  کیوں آیا تھا؟…مقصد کیا تھا ؟اچانک اسے ایسا  محسوس ہو ا جیسے  کسی نے کمرے  کے بیرونی دروازے پر ہاتھ مار ا ہو۔وہ چونک کر مڑی مگر اتنی دیر میں  شیشے کے ٹکڑے جھنجھناتے ہوئے  فرش پر گر چکے تھے پھر ٹوٹے ہو ئے شیشے کی جگہ سے ایک ہاتھ  اندر دا خل ہوکر چٹخنی تلاش کر نے لگا۔بڑا سا بھدا ہاتھ  جو با لوں سے ڈھکا  ہو اتھا۔روشی  کے حلق سے ایک دبی دبی سی چیخ نکلی لیکن دوسرے ہی لمحے میں وہ ہاتھ غائب  ہو گیا  اور روشی  کو ایسا محسوس ہوا جیسے  باہر راہداری میں دو آدمی ایک دوسرے سے ہا تھا پائی پر اُتر آئے ہوں۔

روشی ،بیٹھی ہا نپتی رہی۔پھراس نے ایک کر یہہ سی آواز سنی اور ساتھ ہی  ایسا معلوم ہو ا جیسے کوئی بہت وزنی چیز زمین پر گری ہو ۔پھر بھا گتے  ہو ئے قدموں کی آوازیں…اور اب بالکل سناٹا تھا  قریب یا دور  کہیں سے بھی کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی۔ البتہ خود رو شی  کے ذہن  میں ایک نہ مٹنے والی’’جھائیں جھائیں‘‘گونج رہی تھیِ حلق خشک تھا اور آنکھوں میں  جلن سی ہونے لگی تھی۔

وہ بے حس و حرکت  سمٹی  سمٹائی صو فے پر بیٹھی رہی ۔اُس کی سمجھ  میں نہیں رہا تھا کہ کیا کرے۔تھوڑی دیر بعد اچا نک  پر کسی نے دروازہ تھپتھپا یا اور ایک بار پھر اُسے اپنی  روح جسم سے پرواز کرتی محسوس ہو ئی۔

’’میں ہوں ،دروازہ کھولو ‘‘ با ہر سے  آواز آئی لیکن رو شی  اپنے  کانوں پر یقین  کر نے کے لئے تیار نہیں  تھی۔آواز اُسی نوجوان  احمق کی  معلوم  ہو ئی تھی۔

’’پھو سی پھو سی…اررروشی …دروازہ کھو لو ،میں ہوں عمران۔‘‘

روشی  اُٹھ کر دروازے کی طرف  چھپٹی ،دوسرے  لمحے میں عمران  اس کے  سا منے کھڑا برے بُرے سے منہ بنا رہا تھا۔اس کے چہرے پر کئی جگہ ہلکی ہلکی سی خرا شیں تھیں اور ہو نٹوں پر خون پھیلا  ہو ا تھا۔روشی  نے   مضطربانہ  انداز میں اُسے  اندر کھینچ کر دروازہ بند کر دیا‘‘یہ کیا ہوا…تم کہا  تھے؟‘‘

’’تین پیکٹ میں نے وصول  کر لئے ۔دو ابھی باقی  ہیں…پھر سہی ۔‘‘عمران نو ٹو ں کے بنڈل  فرش پر پھینکتا ہو ا بولا۔

’’کیا وہی  تھا؟‘‘روشی  نے  خو فزدہ آواز میں پو چھا۔

’’وہی تھا لیکن نکل گیا …دو پیکٹ ابھی باقی ہیں‘‘۔

’’تم زخمی ہو گئے ہو۔چلو با تھ روم میں‘‘رو شی  اس کا ہاتھ  پکڑ کر غسل خا نے کی طرف کھینچتی ہوئی بو لی۔

کچھ  دیر بعد وہ پھر  صوفے پر بیٹھے ایک دوسرے کو گھو ررہے تھے ‘‘تم با ہر  کیوں چلے  گئے تھے؟‘‘ روشی  نے پو چھا۔

’’میں تمہاری  حفاظت کے لئے  آیا تھا نا…میں جا نتا تھا کہ  وہ ضرور آئے گا۔وہ آدمی جو بیچ سڑک پر فائر کر سکتا ہے،اسے مکا نوں کے اندر گھسنے میں  کب  تامل ہو گا۔‘‘

’’کیا تم واقعی بیو قوف ہو؟‘‘رو شی  نے حیرت سے پو چھا ۔

’’پتہ نہیں۔میں تو خود کو افلا طون کا دادا سمجھتا ہوں۔مگر  دوسرے کہتے ہیں کہ میں بے وقوف ہوں۔کہنے دو،اپنا کیا بگڑتا ہے۔اگر میں  عقلمند ہوں تو اپنے لئے،احمق  ہوں تو اپنے  لئے‘‘

’’تو اب وہ  نا معلو م آدمی میرا بھی دشمن  ہو گیا  ہے‘‘روشی  خشک ہو نٹوں پر زبا ن پھیر کر بولی۔

’’ضرور ہو جا ئے گا۔تم نے کیوں میری جان  بچا نے  کی کوشش کی تھی؟‘‘

’’اوہ…مگر…میں کیا کروں؟ کیا تم   ہر وقت میری حفاظت کرتے رہو گئے‘‘۔

’’دن کو وہ ادھر کا رخ بھی نہ کرے گا۔رات    کی ذمے  داری میں لیتا  ہوں۔‘‘

’’ مگر  کب تک…؟‘‘

’’جب تک  کہ میں اُسے جا ن سے نہ ماردوں ‘‘عمرا  ن بولا۔

’’تم…تم آخر ہو کیا  بَلا ؟‘‘

’’میں  بِلا ہوں …‘‘ عمران  برا مان گیا۔

’’اوہ ڈیر …تم  سمجھے نہیں‘‘

’’ڈیئر …یعنی کہ تم مجھے ڈیر کہہ رہی ہو ‘‘عمران مسرت آمیز  لہجے میں چیخا ۔

’’ہاں،کیوں ،کیا حرج ہے ۔کیا ہم گہرے دو ست نہیں ہیں؟‘‘رو شی مسکراکر  بولی۔

’’مجھے آج تک کسی عورت نے ڈیئر نہیں  کہا‘‘۔عمران مغموم آواز میں   بولا ۔