بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

روشی خواہ مخواہ بور ہو رہی تھی۔اُسے تکلیف پہنچی تھی۔نہ جا نے کیوں…؟وہ جہاں تھی وہیں بیٹھی رہی۔اُس کے ذہن  میں آندھیا  ں سی اُٹھ رہی تھیں۔بڑی عجیب  سی بات تھی۔آج اُس سے پہلی ملاقات تھی اور وہ بھی زبر دستی کی…لیکن اُس کے باو جود بھی وہ محسوس کر رہی تھی جیسے اُس احمق کے رو یے کی بنا پر برسوں پرانی دو ستی ٹوٹ گئی ہو۔اُس نے اُس کا کہنا کیوں نہیں مانا۔ اس کی بات کیوں رد کردی ؟پھر اسے اپنی حماقت پر ہنسی آنے لگی۔وہ کون ہے،کہاں سے آیا ہے اور کل کہاں کو ہو گا؟ایسے آدمی کے لئے اس قسم کا  جذبہ رکھنا  حما قت نہیں تو اور کیا ہے۔اس سے پہلے ایک نہیں سینکڑو ں آدمیوں سے وہ مل  چکی تھی اور انہیں اچھی طرح لو ٹتے  وقت بھی اُس کے دل میں رحم کا جذبہ نہیں  بیدار ہوا تھا لیکن اس احمق نوجوان کو دوسروں کے ہاتھوں لٹتے دیکھ کر نہ جانے کیوں اُس کی انسانیت جاگ اٹھی تھی۔اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کا کوئی نالائق لڑکا اُس کا  دل تو ڑگیا ہو۔

’’جہنم میں جائے ‘‘وہ آہستہ سے بڑبڑ ائی اور ویٹر کو بلا کر ایک پیگ وہسکی کا آرڈر دیا۔پھر اس نے اس طرح اپنے سر کو جھٹکا دیا  جیسے اُس احمق کے تصور سے پیچھا  چھڑانا چا ہتی ہو۔اُس ے سوچا کہ وہ چکنے کے بعد یہاں سے اُٹھ ہی جا ئے گی لیکن  اُٹھ جانے کا تہیہ کر لینے کے باوجود بھی وہیں بیٹھی رہی،سو چتی رہی… اُسی احمق نوجوا ن کے متعلق گھنٹہ گز رگیا اور پھر وہ اسے دوبارہ دکھا ئی دیا۔

وہ قمار خانے کے دروازے میں کھڑا اپنے چہرے سے پسینہ  پو نچھ رہا تھا۔دونو ں کی نظریں ملیں اور وہ تیر کی طرح اُس میز کی طرف آیا’’تم ٹھیک کہتی  تھیں‘‘وہ ایک کرسی پر بیٹھ کر ہا نپتا ہو ابولا میں نے تین ہزار روپے کھو دیئے‘‘

روشی اُسے گھورتی رہی پر دانت پیس کر بولی’’جاؤ …چلے جاؤ ،ورنہ اُلٹا ہاتھ رسید کر دوں گی‘‘

’’نہیں… میں نہیں جا ؤ ں گا ۔تم نے کہا تھا کہ  با ہر خطر ہ ہے‘‘۔

رو شی خا مومش ہو گئی۔وہ کچھ سوچ رہی تھی۔

’’بتاؤ میں کیا کروں ؟‘‘ احمق نے پھر کہا  ۔’’جہنم میں جاؤ۔‘‘

’’میں بھی کتنا گد ھا  ہوں‘‘احمق خود سے بولا ۔’’بھلا یہ بے چاری کیا بتا ئے گی ‘‘احمق کرسی  سے اُٹھ گیا ۔روشی بری طرح جھلا ئی ہوئی  تھی۔اُس نے ذراہ برابر بھی پروانہ کی ۔وہ  اسے باہر جاتے دیکھتی  رہی حتی  کہ وہ صدر دروازے سے گزر گیا۔

اچانک اُس کے خیالات کی روپلٹی اور وہ پھر اس کے لئےبے چین ہوگئی۔اس کے ذہن  میں باہر کے اندھیرے کا تصور رینگنے لگا اور وہ مضطربانہ انداز میں کھڑی ہوگئی۔وہ سوچ رہی تھی ،پھر اسی احمق کے متعلق سو چ رہی تھی ۔اُس نے صرف تین ہزار گنوائے تھے لیکن اس کے بعد بھی اُس کی جیبوں میں کافی رقم ہوگی۔ وہ بڑے نوٹوں کی کئی گڈیاں تھیں۔یقیناً تیس چالیس ہزار ،ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ۔

اس نے بڑی تیزی سے اپنا وینٹی بیگ اُٹھایا اور ہوٹل سے نکل گئی۔باہر اندھیر ے کی حکمرانی تھی۔کافی فاصلے پر اُسے ایک تاریک سایہ نظر آرہا تھا۔متحرک سایہ…جواس احمق کے علاوہ اور کوئی نہیں  ہو سکتا تھا۔ سامنے چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے اور بائیں طرف گھنی جھاڑیوں کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہو اتھا۔سڑک تک پہنچنے کے لئے اُن ٹیلوں کے درمیان  سے گز ر نا ضروری تھا لیکن مو جودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ وقت اُس کے لئے مو زوں نہیں تھا ۔خود پولیس اس علاقے کو خطر ناک  قر اردےچکی تھی ۔ روشی دل ہی دل میں خود کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔کیوں نہ اُ س نے اُس کو اُدھر جا نے سے باز رکھا؟ اُس نےاُسے وہ را ستہ کیوں نہ بتادیا جو بندرگاہ کی طرف جا تا تھا۔

اب وہ اس الجھن میں پڑ گئی تھی کہ اُسے کس طرح آواز دے ۔وہ اُس کے نام سے بھی وا قف نہیں تھی۔

اچا نک اُسے تھو ڑے ہی فا صلے پر ایک دوسرا سایہ  دکھا ئی دیا جو پہلے  سا ئے  کے پیچھے تھا اور یک بیک کسی ٹیلے  کی اوٹ سے نمودار ہو ا تھا۔ پھر اُس نے اُسے اگلے  سائے پر جھپٹتے دیکھا اور وہ بے ساختہ چیخ کو کسی طرح نہ  دبا نہ  سکی جو اس  کے  سنبھلنے  سے پہلے ہی سنا ٹے میں دور تک  لہراتی چلی گئی تھی۔

دو نوں  سائے گتھے ہو ئے زمین  پر گرے …پھر ایک فائر کی آواز ہوا اور ایک سایہ  اچھل کر  جھا ڑیوں کی طرف بھا گا ۔روشی بد حواسی میں سیدھی دو ڑٰ چلی گئی ۔اُس نے تاروں کی چھاؤں میں ایک آدمی کو زمین  پر پڑا دیکھا ۔ دو سرا غائب ہو چکا تھا۔اُسے یقین تھا کہ وہ اُس احمق آدمی کے علاوہ  اور کو ئی نہیں ہو سکتا۔

’’کیا ہوا ۔؟‘وہ بوکھلا ئے انداز میں اُس پر جھک پڑی۔

’’نیند آرہی ہے ‘‘احمق  نے بھرائی ہوئی آواز میں جوا ب دیا ۔

’’اٹھو۔‘‘ وہ اُسے جھجھو ڑنے لگی‘‘بھا گو۔۔۔۔۔۔پوری طاقت سے ہوٹل کی طرف بھا گو‘‘۔احمق اُچھل  کر کھڑا ہ وگیا او ر پھر  اُس نے  بڑی  پھرتی سے رو شی کو کندھے پر لاد کر ہوٹل کی طرف بھا گنا شروع کر دیا۔روشی’’ ارے ارے  ‘‘ ہی کرتی رہ گئی ۔پھر تھوڑی دیر بعد دو نوں ایک دوسرے کےسامنے کھڑے ہانپ رہے تھے اور وہ ہوٹل کے صدردروازے کے قریب تھے۔فائر اور چیخ کی آواز سن  کر یہاں پہلے ہی سے بھیڑ اکٹھا ہو گئی تھی۔

’’کہیں چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘روشی نے پو چھا ۔

’’چوٹ آئی نہیں بلکہ ہوگئی ۔میں اس وقت کوڑی کوڑی کو محتاج ہو ں‘‘احمق نے کہا۔

ہو ٹل کا مینجر انہیں اندر لا یا اور سیدھا اپنے کمرے میں لیتا چلا گیا‘‘ آپ نے بڑی غلطی کی‘‘اُس نے احمق سے کہا۔

’’ارے جناب ۔میں شام کو ادھر ہی سے آیا تھا‘‘

’’کیا آپ نے سڑک کے کنا رے لگے ہوئے بوڑد پر  نظر نہیں ڈالی تھی جس پر تحریر  ہے کہ سات بجے کے بعد اس طرف جا نے والو ں کی جان  ومال کی  حفاظت نہیں کی جا سکتی ۔یہ بورڈ محکمہ پولیس کی طرف سے نصب  کرایا گیاہے‘‘

’’میں نے نہیں دیکھا تھا‘‘

’’کتنی رقم گئی ؟‘‘مینجر نے متا سفا نہ لہجے میں  پو چھا۔

’’سینتالیس ہزار…‘‘

’’میرے خدا‘‘ مینجر کی آنکھیں متحیرانہ انداز میں پھیل گئیں۔

’’اورتین ہزار آپ کے قمار خانے میں ہار گیا۔‘‘

’’مجھے افسوس ہے ‘‘۔مینجر نے مغموم آواز میں کہا ’’مگر جوا تو مقدر  کا کھیل ہے ہو سکتا ہے کل آپ چھ ہزار کی جیت میں رہیں‘‘

’’اٹھوں یہاں سے ‘‘روشی احمق کا ہاتھ پکڑ کر  کھینچتی ہو ئی بولی۔

وہ مینجر کے کمرے سے باہر نکل آئے۔ایک بار پھر لوگ اُن کے گرد اکٹھا ہو نے  لگے تھے لیکن  روشی اُسے اُن کے نرغے سے صاف نکال لے گئی۔

وہ دوسری طرف کے دروازے پیدل بندرگاہ کی طرف جا رہے تھے۔

’’کیو ں طوطے ،‘‘ اب کیا خیال ہے ؟‘‘ روشی نےاس سے پو چھا ۔

’’اب خیال یہ ہے کہ میں اپنے  رو پے وصول کئے بغیر یہاں سے واپس نہیں جاؤں گا۔پچاس ہزار کی رقم  تھوڑی نہیں ہو تی‘‘۔

’’لیکن  تم اتنی رقم لے کر  آئے ہی کیوں تھے؟‘‘

’’مجھے  پچاس بھینسیں خرید نی تھیں۔‘‘

’’بھینسیں؟‘‘

’’ہااں بھینسیں  …اور میں ا ن بھینسوں کے بغیر وا پس نہیں جا سکتا کیونکہ میرے ڈیدی ذرا غصہ ور قسم کے آدمی ہیں۔‘‘

’’کیاوہ بھنیسوں کی  تجا رت کرتے ہیں؟‘‘

’’نہیں …اُنہیں بھنیسو ں سے عشق ہے ‘‘احمق  نے سنجیدگی سے کہا  اور روشی بے ساختہ ہنس پڑی۔ ہائیں تم مذاق سمجھتی ہو کیا !‘‘احمق نے حیرت سے کہا۔’’یہ حقیقت ہے کہ  وہ اپنے گرد و پیش زیادہ سے زیادہ بھینسیں دیکھ کر  بے حدخوش ہو تے ہیں۔‘‘

’’وہ اور کیا  کر تے ہیں؟ یعنی ذریعہ معاش کیا ہے؟‘‘

’’یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم ‘‘

’’تم پاگل تو نہیں ہو؟‘‘رو شی نے پو چھا۔

’’پتہ نہیں۔ ‘‘