یہ سراغ رسانی نہیں تھی جوشی …آر… روشی اسے عرف عام میں بنڈل بازی کہتے ہیں اور میں اسی طرح اپنا کام نکالتا ہوں۔ سراغرسانی کا فن جسے کہتے ہیں وہ بہت اونچی چیز ہے لیکن یہ کیس ایسا تھا کہ جس میں فن سراغ رسانی جھک مار جاتا اور حقیقت یہ ہے کہ میں اس کیس میں بری طرح اُلو بنا ہوں ۔“
’’کیوں…؟‘‘
’’میں سمجھ رہا تھا کہ میں انہیں اُلّو بنا رہا ہوں لیکن جب میں اُن کے پھندے میں پھنس گیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں اُلّوؤں کا قبلہ و کعبہ ہوں۔ ٹھہرو میں خود ہی بتائے دیتا ہوں۔ میں در اصل اُن پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں بھی انہیں کی طرح ایک بدمعاش ہوں اور جعلی نوٹوں کا کاروبار میرا خاص مشغلہ ہے۔ مجھے توقع تھی کہ میں اس طرح اُن میں گھل مل سکوں گا۔ میری توقع پوری ہوگئی۔ ان کے سرغنہ نے مجھے اسی ویرانے میں بلایا۔ جہاں پہلی بار مجھ پر حملہ ہوا تھا۔”
’’ لیکن یہ تو بتاؤ کہ یہ طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی… ؟ جبکہ تم اُن کے سرغنہ سے پہلے ہی واقف تھے۔ تم نے مجھ سے کان کٹے آدمی کے متعلق پوچھ گچھ کی تھی یا نہیں ؟‘‘۔
’’ کی تھی …لیکن اس وقت تک نہیں جانتا تھا کہ سر غنہ وہی ہے اور پھر محض جاننے سے کیا ہوتا ہے اُس کے خلاف ثبوت فراہم کیے بغیر اس پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا تھا اور ثبوت کی فراہمی کے لئے اُس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا تھا جو میں نے اختیار کرنا چاہا تھا۔ ہاں تو جب وہاں پہنچا تو انہوں نے اندھیرے میں میرا پارسل بیر نگ کر دیا۔ سر کی وہ چوٹ ابھی تک دُکھ رہی ہے… پھر وہ مجھے اپنے ٹھکانے پر لے گئے اور وہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہ میری شخصیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔”
پھر عمران نے اپنی خودکشی تک کے واقعات دہراتے ہوئے کہا’’ میں نے رسی کمرے میں باندھی تھی اور اسے اس کے اندر سے اس طرح گردن کی سیدھ میں لے گیا تھا کہ دور سے پھندا گردن ہی میں معلوم ہو. ہاہا…پھر وہ پھنس ہی گئی ۔
’’ ہاں، بس ، عورتوں ہی کو بے وقوف بنانا جانتے ہو۔‘‘ روشی منھ بنا کر بولی۔
’’میں خود ہی بیوقوف ہوں روشی یقین کرو …یہ تو اکثر ایک خاص قسم کا موٹا مجھ پر طاری ہوتا ہے۔ جب میں دوسرو ےبے وقوف نہیں نظر آتا …”پھر اُس نے بطخ کے خون والا لطیفہ دہرایا اور روشی بے تحاشہ بننے لگی لیکن عمران برا سا منہ بنا کر ’’یہاں بھی میں اُلّو بن گیا اس کے سارے ساتھیوں کو تو میں نے اس طرح بند کر دیا تھا لیکن وہ خود باہر ہی رہ گیا تھا ۔پھر حقیقت تو یہ ہے روشی کہ میں عمران ہوں یا نہیں ، وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔‘‘
” کیا مطلب…؟”
’’میں عمران کا بھوت ہوں اور اگر میں بھوت نہیں ہوں تو اس پر یقین آنے میں عرصہ لگے گا کہ میں واقعی زندہ ہوں۔ اُف فوہ !کمبخت پتہ نہیں کتنے ہارس پاور کا ہے ہارس پاور نہیں بلکہ، یلیفنٹ پاور کہنا چاہئے، مجھے تو قطعی اُمید نہیں تھی کہ اس کے ہاتھوں زندہ بچوں گا۔ یہ کہو کہ میرے اوسان خطا نہیں ہوئے ورنہ وہ مجھے فٹ بال کی طرح اچھال دیتا ‘‘عمران خا موش ہو کر چیونگم چبانے لگا۔
’’اب مجھے یقین آگیا کہ تم واقعی بے وقوف ہو ۔“
’’ہوں نا… ہاہا ‘‘عمران نے قہقہہ لگایا۔
’’ قطعی… دنیا کا کوئی عقلمند آدمی تنہا اُن سے نمٹنے کی کوشش نہ کرتا۔ تمہارے پاس بہت وقت تھا۔ کمرے سے نکلنے کے بعد تم پولیس کی مدد حاصل کر سکتے تھے ۔“
’’ہاں ،ہے تو یہی بات لیکن اُس صورت میں اُن کی پر چھائیاں بھی نصیب نہ ہوتیں۔ وہ کوئی معمولی گروہ نہیں تھا روشی ۔تم خود سوچو… پولیس کی بھیڑ بھاڑ ۔ خدا کی پناہ ..سارا کھیل چوپٹ ہو جاتا۔ اُف فوہ… خیر لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا ۔ کہ اس سلسلے میں ڈیڈی مجھ سے یقیناً جواب طلب کریں گے اور پھر شاید مجھے استعفیٰ ہی دینا پڑے۔
’’تو پھر مجھے کیوں ساتھ لے جارہے ہو ؟ ‘‘روشی نے کہا۔
’’ پروانہ کرو۔ جاسوسی ناولیں چھاپنے کا دھندہ کریں گے۔ تم انہیں ٹھیلے پر سجا کر پھیری لگایا کرنا اور میں ایجنٹوں کو لکھا کروں گا کہ ہم ایک کتاب کے آرڈر پر بھی آپ کو پچاس فی صد کمیشن دیں گے اور کتاب کا سر ورق ہم ایک ماہ پہلے آپ کی خدمت میں روانہ کردیا کریں گے۔ آپ کا دل چاہے تو آپ صرف سر ورق ایک روپیہ میں فروخت کر کے کتاب کسی ردی فروش کے گلے لگا سکتے ہیں وغیر وغیرہ….ہپ‘‘ ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــختم شدـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ