ٹھیک تین بجے عمارت کا صدر دروازہ کھلا اور دس آدمی اندر داخل ہوئے ۔ ان میں سے صرف ایک کا چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا اور بقیہ نو آدمی بے نقاب تھے ۔ ان کے چہروں سے تھکن ظاہر ہورہی تھی لیکن قیدی کے کمرے کے سامنے روشنی دیکھ کر ان کے چہروں سے اضمحلال کے آثار غائب ہو گئے ، کھلے ہوئے دروازے سے روشنی باہر برآمدے میں رینگ آئی تھی۔
نقاب پوش سرغنہ بے تحاشہ بھاگتا ہوا کمرے میں جا گھسا اور پھر اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔ کمرہ خالی تھا، چھت سے ایک خون آلود رسی لٹکی ہوئی تھی اور فرش پر بھی خون نظر آرہا تھا۔ پھر خون کے چھوٹے چھوٹے دھبے اس جگہ سے دروازے تک چلے گئے تھے۔ وہ دروازے کی طرف جھپٹا۔ اُس کے بقیہ نو ساتھی ساکت وصامت دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔ خون کے لا تعداد چھوٹے چھوٹے دھبے دروازے کے باہر برآمدے میں بھی تھے۔ وہ سب انہیں دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔
اب دھبوں کا رخ اسلحے کے کمرے کی طرف ہو گیا تھا۔ اُن میں سے ایک نے جیب سے ٹارچ نکال لی کیونکہ یہ راہداری تاریک تھی۔ انہیں اسلحہ خانے کا دروازہ بھی کھلا ہوا ملا۔ خون کے دھبوں کی قطار دروازے میں مُڑ کر اسلحہ خانے کے اندر تک چلی گئی تھی۔ وہ سب بے تحاشہ اندر چلے گئے اور کسی کے منہ سے نکلا ۔‘‘ ارے بطخ …یہ کیا؟”
وہ مڑنے بھی نہ پائے تھے کہ دروازو باہر سے بند ہو گیا اور اندھیرے میں عمران کا قہقہ گونج رہا تھا۔ لیکن عمران کو اس کی خبر نہیں تھی کہ یہی اندھیرا جس نے اُس سے فائدہ اٹھایا ہے، خود اُسی کے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ان کا سرغنہ باہر ہی رہ گیا ہے۔ اس نے للکار کر کہا ” کیوں دوستو۔۔۔۔ اب کیا خیال ہے؟”
وہ سب اندر سے دروازہ پیٹنے اور شور مچانے لگے۔ عمران نے پھر قہقہ لگایا لیکن یہ قہقہ اچانک اس طرح رک گیا جیسے کسی سائیکل کے پہیوں میں پورے بریک لگ گئے ہوں ۔ کسی نے پشت سے اُس پر حملہ کر دیا تھا۔ ٹا می گن اُس کے ہاتھ سے نکل کر اندھیرے میں کہیں دور جا گری۔
حملہ آور اُن کا سرغنہ تھا جو اسلحہ خانے میں بند کر دیئے گئے تھے۔ جب وہ خون کے دھبوں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو وہ قیدی والے کمرے کے سامنے رک کر کچھ سوچنے لگا تھا وہ سب اسلحہ خانے تک پہنچ گئے اور وہ وہیں کھڑا تشویش آمیز نظروں سے چاروں طرف دیکھتا رہا۔
اور اب شاید تقدیر عمران پر قہقہے لگارہی تھی۔ حملہ بڑا شدید تھا عمران کو بالکل یہی محسوس ہوا جیسے کوئی سینکڑوں من وزنی چنان اس پر آگری ہو خود اُس کا جسم بھی کافی جاندار تھا۔ لیکن اُس حملے نے اُس کے دانت کھٹے کر دئے ۔ نقاب پوش اُس سے لپٹ پڑا تھا عمران نے اُس کی گرفت سے نکلنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ اُس نے اُسے کچھ اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ عمران کا دم گھٹنے لگا تھا اسلحہ خانے کے اندر ابھی تک شور جاری تھا۔
” خاموش رہو۔‘‘ اُن کے سرغنہ نے انہیں ڈانٹا لیکن اُس کی آواز اتنی پرسکون تھی ، جیسے اُس نے کسی آرام کرسی پر کاہلوں کی طرح پڑے پڑے سرزنش کی ہو۔ دوسری طرف اُس نے عمران کوز مین سے اُکھاڑ دیا تھا اور بتدریج سے اوپراُ ٹھاتا چلا جارہاتھا۔ عمران نے اُس کی ٹانگوں میں ٹانگیں پھنسانی چاہیں لیکن کامیاب نہ ہوا۔ وہ اسے اوپر اُٹھا تا چلا جار ہا تھا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت عمران کے حو اس جواب دئے گئے تھے اور حملہ آور پرگو یا کسی تم کا جنون طاری ہو گیا تھا۔ اُسے بھی شاید اس بات کا ہوش نہیں رہ گیا تھا کہ اب اس کی گردن بہ آسانی عمران کی گرفت میں آسکتی ہے۔ وہ تو اس چکر میں تھا کہ عمران کو اُٹھا کر کسی دیوار پر دے مارے اور اس کی ہڈیاں سرمہ ہو جائیں۔
اس قسم کے خطر ناک مجرم اگر کسی خاص موقعے پر اس طرح اپنی عقل نہ گنوا بیٹھیں تو قانون بے چارہ عجائب خانے کی الماریوں کی زینت بن کر رہ جائے ۔
اچانک عمران کے ہاتھ اُس کی گردن سے ٹکرائے اور ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارامل گیا۔
اُس نے بری طرح اُس کی گردن دبوچ لی اور پھر دونوں ساتھ زمین پر آر ہے ۔ عمران کے ہاتھوں سے اُس کی گردن نکل چکی تھی لیکن اُس نے گرتے گرتے اپنی کہنی اُس کی ناک پر جمادی اور بائیں ہاتھ سے اس زور کا گھونسہ اس کی پیشانی پر رسید کیا کہ نقاب پوش کے منہ سے ایک بے ساختہ قسم کی کراہ نکل گئی۔ عمران اس موقع کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ اس پر لد پڑا اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے ۔ نقاب پوش چت گرا تھا اور عمران اس کے سینے پر سوار تھا۔ ساتھ ہی وہ اپنا سار از ور اس کے ہاتھوں کو زمین سے لگائے رکھنے پر صرف کر رہا تھا اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گیا تھا… مگر یہ پوزیشن بھی خطرے سے خالی نہیں تھی۔ عمران اس کی قوت کا اندازہ تو کر ہی چکا تھا۔ لہٰذا اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اگر اُسے ذرا سا بھی موقع مل گیا تو وہ اُسے گیند کی طرح اُچھال دے گا۔ اُس نے بوکھلاہٹ میں اپنا سر نقاب پوش کے چہرے پر دے مارا… چوٹ ناک پر پڑی اور نقاب پوش بلبلا اُٹھا۔
پھر تو عمران کے سرنے رُکنے کا نام ہی نہ لیا۔ نقاب پوش کی چیخیں کر یہہ اور ڈراؤنی تھیں۔ اپس کے ساتھیوں نے پھر شور مچانا شروع کر دیا لیکن اس کی آواز آہستہ آہستہ دبتی ہوئی ہلکی ہلکی سسکیوں میں تبدیل ہوتی گئی