بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

عمران کے منہ سے گالیاں سن پر اس عورت کا موڈ بہت زیادہ خراب ہو گیا تھا۔ وہ کافی حسین تھی اور عمر بھی بیسں یا بائیسں سے زیادہ نہ رہی ہوگی۔ ممکن ہے اس کے ساتھی اُس کی ناز برداریاں بھی کرتے رہے ہوں۔ بہر حال وہ ایسی نہیں معلوم ہوتی تھی کہ کسی کی تلخ کلامی برداشت کر سکتی۔ اور یہ حقیقت تھی کہ وہ اس وقت اس عمارت میں تنہا تھی۔ عمران کو مجبوس کرنے والوں کو شاید یقین واثق تھا کہ وہ یہاں سے نکل نہ سکے گا۔ ورنہ وہ ایسی غلطی نہ کرتے۔ وہ عورت غصے میں ہانپتی ہوئی مسہری پر گری اُسے شاید اپنے ساتھیوں پر بھی غصہ آرہا تھا۔ وہ سو جانا چاہتی تھی مگر نیند کا کوسوں پتہ نہیں تھا۔ میں منٹ گزر گئے وہ کروٹیں بدلتی رہی۔

اچا نک اُس نے ایک چیخ  سنی، جو قیدی ہی کے کمرے سے بلند ہوئی تھی اور پھر کچھ اس قسم کی آواز میں آنے لگیں جیسے کوئی کسی کا گلا گھونٹ رہا ہو۔ وہ بے تحاشہ اچھل کر کھڑی ہوگئی اور غیر ارادی طور پر قیدی کے کمرے کی طرف دوڑ نے لگی لیکن اب سناٹا  تھا۔

” کیا ہے ۔ کیوں شور مچارکھا ہے ؟ ‘‘اس نے کمرے کے سامنے پہنچ کر کہا لیکن اندر سے کوئی جواب نہ ملا۔ ایک دروازے کی جھری پر اُس کی نظر پڑی اور اُس نے اندازہ کر لیا کہ اندر کا بلب روشن ہے۔ دوسرے ہی لمحے اس کی ایک آنکھ جھری سے جالگی لیکن پھر وہ اس طرح ایک جھٹکے کے ساتھ پیچھے ہٹ گئی جیسے الیکٹرک شاک لگا ہو۔ اُس نے کمرے کے اندر جو کچھ بھی دیکھا وہ اُس کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی تھا۔ چھت سے ایک لاش لٹک رہی تھی۔ اُس کے پیر زمین سے تقریبا ًتین فٹ اُونچائی پر جھول رہے تھے اور گردن میں رسی کا پھندا …چہرہ دوسری طرف تھا۔ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ قیدی نے ایک کرسی پر کھڑے ہو کر پھندا اپنی گردن میں ڈالا  اور پھر اسے مار کر کرسی ایک طرف گرادی زیادہ السٹر  اور سیا ہ پتلون میں دولاش بڑی ڈراؤنی معلوم ہو رہی تھی۔

وہ ایک بار پھر جھری سے اندر جھانکنے لگی۔ اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کیو  نکہ اس نے قیدی کی دلیرانہ حرکتوں کے متعلق اپنے ساتھیوں سے بہت کچھ سنا تھا۔ خواب و خیال میں بھی اسے توقع نہیں تھی کہ ایسا بےجگر آدمی اس طرح خود کشی کر لے گا ۔ حالانکہ وہ کچھ دیر پہلے اس کی توہین کر چکا تھا لیکن پھر بھی وہ اس کے انجام پر متاسف ہوئے بغیر نہ رہ  سکی۔

وہ کوئی کمزور دل کی عورت نہیں تھی ۔ کمزور دل کی عورت ایسے خطرناک مجرموں کے ساتھ رہ ہی کیسے سکتی تھی۔

وہ  چند لمحے کھڑی کچھ سوچتی رہی پھر دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوگئی ۔ لاش کی پشت دروازے کی طرف تھی۔ عورت آگے بڑھی تا کہ اُس کا چہر  ہ دیکھ سکے لیکن قبل اس کے کہ وہ اُس کے قریب پہنچتی لاش رسّی کے پھندے سے نکل کر دھم سے فرش پر آرہی۔ عورت گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی لیکن عمران نے اُسے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا۔ دوسرے لمحے میں اُس کی صراحی دار گردن عمران کی گرفت میں تھی۔

’’وہ  یہاں کب واپس آئیں گے ؟ ‘‘عمران نے گرفت مضبوط کرتے ہوئے پو چھا۔

 عورت تھوک نگل کر رہ گئی۔ اُس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی ہوئی تھیں اور وبُری طرح کانپ رہی تھی۔

’’ بتاؤ ورنہ گلا گھونٹ دوں گا ۔‘‘ عمران کے چہرے پر سفا کی نظر آنے لگی۔

’’ ساڑے …ساڑھے تین بجے ۔”

’’جھوٹ بک رہی ہو۔ خدا سے ڈرو دور نہ زبان سڑ جائے گی ۔‘‘ عمران نے احمقانہ انداز میں کہا اور اس کی گردن چھوڑ دی۔ عورت اُسی جگہ کھڑی ہانپتی رہی۔ ” تم نے کچھ دیر پہلے مجھے برا بھلا کہا تھا۔ اب کہو تو تمہارے کان اور ناک کاٹ لوں۔”

عورت کچھ نہ بولی۔ عمران بکتا رہا۔ ” تم صورت سے شریف معلوم ہوتی ہو۔ ورنہ میں ابھی تمہیں گلا گھونٹ کر مار ڈالتا۔ کیا تم ان میں سے کسی کی بیوی ہو؟ ‘‘

عورت نے نفی میں سرہلادیا اور عمران گرج کر بولا ” پھرتم کیا بلا ہو۔؟ زبان سے بولو ورنہ اسی رسی  میں تمہاری لاش لٹکی نظر آئے گی ۔‘‘

’’میں اُن کے کسی جرم میں شریک نہیں ہوں ‘‘۔ عورت نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

” تم آخر ہو کون؟”

’’میں جو کچھ ہوں یہی ہوں اور اس زندگی سے تنگ آگئی ہوں اُنہوں نے مجھے کہیں کا نہ رکھا لیکن اب میں ہر حال میں ان کے پنجے سے نکلنا چاہتی ہوں۔“

’’شاباش …اچھا میں تمہیں بچالوں گا۔ لیکن جو کچھ میں کہوں اس پر عمل کرو۔۔۔۔ “

” میں تیار ہوں۔”

’’باہر نکلنے کا درواز و مقفل ہو گا ؟ ” عمران نے پوچھا۔

’’نہیں ، مقفل نہیں ہے ۔ “

’’تو پھر اُن کی آمد پر دروازہ کون کھولے گا ؟ کیا تم جاگتی رہو گی؟”

 ’’ نہیں وہ خود کھول لیں گے اور اس کی ترکیب اُن کے علاوہ اور کسی کو معلوم نہیں ۔ “

’’ کیا یہ عمارت بر شفیلڈ فشریز والوں کی ہے؟‘‘ عمران نے پوچھا اور عورت نے اثبات میں سر ہلایا ۔’’ یہ عمارت جمیس  اسٹریٹ میں ہے نا ۔‘‘ عمران نے پوچھا اور اس کا جواب اثبات ہی میں ملا۔

 عمران مطمئن ہو گیا کہ یہ وہی عمارت ہے جس کا سراغ اُسے فوٹو گرافر کا تعاقب کرنے پر ملا تھا۔ وہ چند لمحے کچھ سوچتا رہا… پھر بولا۔’’ تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتیں اپنے کمرے میں جاؤ۔“

وہ چپ چاپ کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ عمران اس کے پیچھے تھا۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی عمران نے دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ چپ چاپ پڑی رہنا اور نہ گردن صاف، مجھے عورتوں پر بھی رحم نہیں آتا ۔‘‘ عمران غرایا۔ ‘‘اندر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ عمران آگے بڑھ گیا۔

وہ بڑی تیزی سے عمارت کا جائزہ لیتا پھر رہا تھا۔ باہر کے سارے دروازے آزمائے لیکن انہیں کھولنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ایک کمرے میں اُسے اسلحے کا ذخیر ہ نظر آیا۔ دروازہ مقفل نہیں تھا۔ شاید یہاں سے جاتے وقت انہوں نے کچھ اسلحہ لیا تھا اور کمرے کو مقفل کرنا بھول گئے تھے۔ عمران نے ایک ٹامی گن اُٹھا کر اسے لوڈ کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا ۔ ٹامی گن اس کے ہاتھ میں تھی لیکن اگر کوئی دوسرا اُسے اس حال میں دیکھتا تو قطعی مخبوط الحواس سمجھتا ۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ عمران نون پر پولیس سے رابطہ قائم کر کے عمارت کا محاصرہ کر لیتا۔ یہاں فون موجود تھا۔ عمران چاہتا تو اُسے استعمال کر سکتا تھا۔ مگر اُس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ کسی شکاری کتے کی طرح عمارت کا گوشہ گوشہ سونگھتا پھر رہاتھا۔ اُسے مجرموں کی واپسی کی بھی پرواہ نہیں تھی وہ اُن کے جرائم سے واقف ہو چکا تھا۔ اور اے بی سی ہوٹل کے قریب والے ویرانے پر اس بھیا نک آدمی کی حکمرانی کا مقصد بھی اُس کے ذہن میں صاف ہو چکا تھا۔

 تھوڑی دیر بعد وہ پھر اسی کمرے کے سامنے پہنچ گیا۔ جہاں اُسے قید کیا گیا تھا۔ اس نے عورت کے کمرے کی طرف نظر ڈالی جس کا دروازہ بدستور بند تھا اندر روشنی ضرور تھی لیکن کسی قسم کی آواز نہیں سنائی دیتی تھی ۔ عمران نے اُس بطخ کی طرف دیکھا جو اس کے بائیں ہاتھ میں لٹک رہی تھی یہ اسے اسی عمارت کے ایک ڈربے میں ملی تھی ۔ وہ کمرے میں داخل ہو گیا ۔ نامی کن میز پر رکھ دی۔ رہی ابھی تک چھت میں لگے ہوئے کڑے سے لٹک رہی تھی۔

 چند ہی لمحوں بعد عمران بطخ  کو ذبح کر رہا تھا کچھ خون فرش پر پھیل گیا اور کچھ اُس نے بڑی احتیاط سے ایک گلاس میں اکٹھا کرلیا۔