بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’ کیا کرتی؟ میں نے سوچا کہ جب اُس نے میری جائے رہائش کا پتہ لگایا تو مجھے کسی قسم کا نقصان پہنچانے میں اُسے کیا عار ہو سکتا ہے۔”

’’ٹھیک ہے تم نے قلمندی سے کام لیا ۔”

’ ’مگر… روشی عمران کو گھورتی ہوئی بولی ۔” کیا اُس نے تمہارے متعلق سچ لکھا ہے۔”

’’جھک مارتا ہے۔ اب میں اُس سے اپنی توہین کا بدلہ لوں گا۔

’’دیکھو طوطے، میں نے تمہارے بارے میں بہت کچھ سوچا ہے اور ہاں۔ تم نے یہ جاناں کس خوشی میں کر رکھا ہے۔؟” ” میں بہت زیادہ روشتی چاہتا ہوں اگر تم نے میرے بارے میں غلط ہی سوچا ہوگا۔ اچھا اب تم مجھے یہاں بھی نہیں دیکھوگی ۔”

’’تو تم واقعی اس شہر سے جار ہے ہو‘‘ ۔

’’میں کسی کے حکم کا پابند نہیں ہوں۔ اور بھلا میں اس مسخرے سے ڈر کر بھاگوں گا؟”

” خدا کے لئے مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟”

’’ایک معمولی سا مجرم کیا تمہیں اس کی بات پر یقین نہیں آیا ‘‘

’’نہیں، مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ ایک معمولی سا مجرم اُس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا۔ یہاں کے اچھے اچھے دل گردے والے اس کے تصور سے بھی کانپتے ہیں۔ تم میرےپیشے  سے واقف ہی ہو۔ ہر قسم کے آدمیوں سے میرا سابقہ پڑتا ہے۔”

’’میں ایک شریف آدمی ہوں۔ممی  اور ڈیڈی بچپن ہی سے مجھے اس کا یقین دلاتے رہے ہیں۔‘‘ عمران نے مغموم لہجے میں کہا ” ویسے میں کبھی سچ مچ حماقتیں کر بیٹھتا ہوں۔ جیسے آج…‘‘

عمران نے اپنا ٹیلیفون بوتھ والا کارنامہ  دُہرایا اور روشی بے تحاشا ہنسنے  لگی۔ اُس نے کہا تم جھوٹے ہو۔ تم نے میری آواز کی نقل کیسے اُتاری ہوگی؟ مجھے تو یقین نہیں آتا‘‘۔

’’اس طرح …اس میں مشکل ہی کیا ہے‘‘ عمران نے ہو بہو روشی کے لہجے اور آواز کی نقل اُتاری۔

روشی چند لمحے اُسے حیرت سے دیکھتی رہی پھر بولی ” مگر اس حرکت کا مقصد کیا تھا؟”

” تفریح… وہ کیا کہوں، مگر نتیجہ دیکھو کہ اُس نے خود ہی پیکٹ واپس کر دیے ۔ “

’’تمہاری عقل خبط ہو گئی ہے ۔‘‘ روشی نے کہا ” مجھے اس میں بھی کوئی چال معلوم ہوتی ہے۔‘‘

’’ ہو سکتا ہے، بہر حال اتنا میں جانتا ہوں کہ اُس کے آدمی ہر وقت میرے پیچھے لگے رہتے ہیں، ورنہ اُسے تمہارا پتہ  کیسے معلوم ہوتا ۔”

’’یہ میں بھی سوچ رہی تھی‘‘۔

’’یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آج شام تم سے ملا تھا میرے ہی ذریعے وہ تم تک پہنچا ہوگا۔”

’’ مگر عمران ، دو آدمی جو ان پیکٹوں کو لایا تھا۔ جانتے ہو وہ کون تھا؟ مجھے حیرت ہے وہ دہی کان کٹا ماہی گیر تھا جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے ۔”

عمران سنبھل کر بیٹھ گیا’’ کیاوہ تمہیں پہنچانتا ہے ؟ ‘‘اس نے پوچھا۔

’’یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتی ‘‘،نہیں مجھے پہلے کبھی اس سے گفتگو بھی کرنے کا اتفاق نہیں ہوا”۔

 عمران کی پیشانی پر شکنیں اُبھر آئیں۔ دو کچھ سوچ رہاتھا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے ایک طویل انگڑائی لے کر کہا ’’ جاؤ۔ اب سو جاؤ۔ مجھے بھی نیند آرہی ہےاگر تم اب بھی مجھے بور کروگی تو میں اس وقت یہاں سے چلا جاؤں گا ۔”

روشی چپ چاپ اٹھی اور اپنی خواب گاہ میں چلی گئی ۔ عمران درواز ے اور کھڑکیاں بند کرنے کے بعد تھوڑی دیر تک چیو تم سےشغل کر تا رہا۔ پھر نونوں کے پیکٹ کھول ڈالے۔ اُسے توقع تھی کہ ان پیکٹوں میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ کیونکہ روشی کو اُس کے خط میں پیکٹوں کو نہ کھولنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کا خیال صحیح نکلا ۔ ایک پیکٹ میں نوٹوں کے درمیان ایک تہہ کیا ہوا کاغذ کا ٹکڑا نظر آیا۔ یہ بھی ایک خط تھا لیکن اس میں عمران کو مخاطب کیا گیا تھا۔

’’دوست… بڑے جیالے معلوم ہوتے ہو، ساتھ ہی شاطر بھی مگر جعلی نوٹوں کا دھندا چھچھورا پن ہے اگر ترقی کی خواہش ہو تو کل رات کو گیارہ بجے اس ویرانے میں ملو جہاں میں نے تم پر پہلا حملہ کیا تھا۔ اے ۔ بی ۔سی ہوٹل والے شکاری کے متعلق اطلاع فراہم کرنے کا شکریہ اس نے صرف مچھلیوں کے شکار کے لئے وہاں قیام کیا ہے لیکن وہ مچھلیوں کے شکار کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا… تو تم کل رات کو ضر ورمل رہے ہو۔ میں انتظار کروں گا ۔”

 عمران نے خط کو پرزے پرزے کر کے آتش دان میں ڈال دیا اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ وہ اُٹھا اور دبے پاؤں روشی کے فلیٹ سے نکل گیا۔

دوسری رات جب آسمان تاریکیاں بکھیر رہا تھا۔ عمران اُس ویرانے میں پہنچ گیا جہاں اُسے بلایا گیا تھا۔ تین یا چار فرلانگ کے فاصلے پر ہی اے۔ بی۔ سی ہوٹل کی روشن کھڑکیاں نظر آرہی تھیں۔ عمران انہیں ٹیلوں کے درمیان کھڑا تھا جہاں اس پر کچھ دنوں پیشتر حملہ کیا گیا تھا۔ اُسے زیادہ دیر تک انتظار نہیں کرنا پڑا۔

’’تم آگئے ‘‘؟ اُسے اپنی پشت پر تیز قسم کی سرگوشی سنائی دی۔

عمران چونک کر مڑا ۔ تھوڑے ہی فاصلے پر اُسے ایک سایہ نظر آیا ‘‘‘ہاں، میں آگیا‘‘ عمران نے اُسی انداز میں سرگوشی کی اور میں تم سے ذرہ برابر بھی خائف نہیں ہوں”۔

’’مجھے ایسے ہی آدمی کی ضرورت تھی‘‘ سائے نے جواب دیا۔’’ میں تمہیں چھ ماہ کے اندرہی  اندر لکھ پتی بنادوں گا‘‘۔

’’ میں لکھ پتی نہیں بننا چاہتا۔ میں صرف اس لئے آیا ہوں…‘‘

’’ختم کرو۔ میں کچھ نہیں سنوں گا۔ جوانی کا خون گرم ہوتا ہے۔ تم ابھی بچے ہو۔ بڑھاپے میں پیسوں کی قدر معلوم ہوتی ہے۔”

“تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘ عمران نے پوچھا۔

“میرے ساتھ چلو‘‘۔

’’چلو… مگر کبھی مجھے شادی پر مجبور نہ کرنا ۔ میں اس کے علاوہ ہرقسم کی غلطی کر سکتا ہوں۔”

 سایہ ہنس پڑا …پھر اس نے کہا ” آج روشی دن بھر تمہیں تلاش کرتی رہی ہے ۔”

’’وہ مجھے سچ مچ  کوئی احمق نواب زادہ سمجھتی ہے ۔”

’’آؤ… وقت کم ہے، سائے نے عمران کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔

” کیا گود میں آؤں؟ ‘‘ عمران نے کہا اور ایک طرف ہٹ گیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی کھوپڑی سے بے شمار ستارے نکل کر فضا میں منتشر ہو گئے ہوں۔ کسی نے پُشت سے اُس کے سر پر کوئی ٹھوس اور وزنی چیز دے ماری تھی۔ و ہ لڑ کھڑاتا ہوا تاریک سائے کی طرف بڑھا لیکن اس تک پہنچنے سے قبل ہی ڈھیر ہو گیا۔