روشی کا فلیٹ آج رات بہت زیادہ روشن نظر آرہا تھا۔ عمران نے چند مزید بلبوں کا اضافہ کیا تھا اور وہ فلیٹ میں تنہا تھا۔ اگر اس کے محکمے کے کسی اور آدمی کو اُس کی ان حرکات کا علم ہو جاتا تو وہ اُسے قطعی دیوانہ اور خبطی تصّور کر لیتا۔
آج دن بھر وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتا رہا تھا۔ مجرموں میں سے ایک کا ہاتھ آجانا اور پھر اُسے صرف معمولی سی مرمت کر کے واپس کر دینا اصولاً ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران اُسے با قاعدہ طور پر گرفتار کر کے اُسے اُس کے دوسرے ساتھیوں کی نشاندہی پر مجبور کر دیتا …پھر اُس نے اُسے نہ صرف ہُد ہُد کے وجود سے آگاہ کردیا ، بلکہ اپنے متعلق بھی بتا دیا کہ وہ روشی کے فلیٹ ہی میں رات بسر کرے گا اور اَب اس طرح چراغاں کئے بیٹھا تھا جیسے کسی خاص تقریب کے انتظامات میں مشغول ہو ۔
کلاک نے بارہ بجائے اور اُس نے دروازوں کی طرف دیکھا جو کھلے ہوئے تھے لیکن اُسے کلاک کی ٹک ٹک ‘‘کے علاو ہ اور کوئی آواز نہ سنائی دی۔ دروازے تو کیا آج اُس نے کھڑکیاں تک کھلی رکھیں تھیں، حالانکہ آج سردی شباب پر تھی ۔
اچانک اُسے راہداری میں قدموں کی آواز سنائی دی جو رفتہ رفتہ نزدیک ہوتی جارہی تھی۔ پھر کسی نےگنگنا کر کہا ” روشی ڈارلنگ ۔”
دوسرے ہی لمحے میں ایک نوعمر آدمی دروازے میں کھڑا احمقوں کی طرح پلکیں جھپکا رہا تھا۔ فرمائیے۔ عمران بڑے دلآویز انداز میں مسکرایا ۔
’’اوہ… معاف کیجئے گا ‘‘اُس نے شرمائے ہوئے لہجے میں کہا’’ یہاں پہلے روشی رہتی تھی ۔ “
’’اب بھی رہتی ہے۔ تشریف لائیے ‘‘عمران بولا۔
نوجوان کمرے میں آ گیا۔’’ روشی کہاں ہے ؟‘‘ اس نےپو چھا۔
’’ وہ آج کل اپنی خالہ کے یہاں مرغیوں کی دیکھ بھال کا طریقہ سیکھ رہی ہے ۔”
’’آپ کون ہیں ؟”
” میں ایک شریف آدمی ہوں۔”
’’روشی ،‘‘ نو جوان نے روشی کو آواز دی۔
’’میں کہہ رہا ہوں نا کہ وہ اس وقت یہاں نہیں ہے ۔ ‘‘عمران بولا۔
’’ارے ، وہ بڑی شریر ہے ۔ ‘‘نوجوان ہنس کر بولا۔ ” میری آواز سن کر چھپ گئی ہے۔ خیر، میں ڈھونڈ ے لیتا ہوں۔”
نوجوان بڑی بے تکلفی سے روشی کی خواب گاہ میں داخل ہو گیا عمران اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ نوجوان نے دو، تین منٹ کے اندر ہی اندر فلیٹ کی تلاشی لے ڈالی۔ پھر دوسری طرف تاریک راہداری میں ٹا رچ کی روشی ڈالنے لگا۔
’’ بس کرو میرے لعل ” عمران اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا’’ ابھی تمہارے منہ سے دودھ کی بو آتی ہے۔”
’’مطلب؟‘‘ نو جوان جھلا کر مڑا۔
’’مطلب بھی بتا دوں گا۔ آؤ میرے ساتھ‘‘ عمران نے کہا اور پھر اُسے بیٹھنے کے کمرے میں واپس لایا۔ نوجوان اُسے قہر آلود نظروں سے گھور رہا تھا۔ ” تشریف رکھئے جناب‘‘ عمران نے غیر متوقع طور پر خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔
’’ ابھی تم نے کیا کہا تھا‘‘۔ نوجوان نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
” میں نے عرض کیا تھا کہ آپ تلاشی لے چکے اور اَب آپ کو اطمینان ہو گیا کہ میرے ساتھ دوسرے آدمی نہیں ہیں۔ اب تشریف لے جائیے اور اپنے بُلڈاگ سے کہہ دیجئے کہ میرے نوٹ مجھے واپس کر دے۔ میں بہت برا آدمی ہوں، اپنے ساتھ بھیٹر بھاڑ نہیں رکھتا۔ تنہا کام کرتا ہوں، میں اس وقت اس فلیٹ میں تنہا ہوں لیکن میرا دعویٰ ہے کہ تمہارا بلڈاگ میر ابال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ دیکھو… میں نے سارے دروازے کھول رکھے ہیں اور سارے بلب روشن ہیں۔ لیکن ہاہا…کچھ نہیں‘‘۔
’’میں نہیں سمجھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”
’’جاؤ یار بھیجانہ چاٹو ۔ اُسے میرا پیغام پہنچا دو، جس نے تمہیں بھیجا ہے۔ چلواب کھسکو بھی ورنہ میرا ہاتھ تم پربھی اُٹھ جائے گا۔ آج ہی میں تمہارے ایک ساتھی کی اچھی خاصی مرمت کر چکا ہوں۔“
’’میں تمہیں دیکھ لوں گا ‘‘نو جوان اٹھتا ہوا بولا اور آندھی کی طرح کمرے سے نکل گیا لیکن عمران اس طرح کھڑا تھا جیسے اُسے ابھی کسی اور کا بھی انتظار ہو ۔ اُس نے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور ایک پیش منتخب کر کے اُسے آہستہ آہستہ کچلنے لگا۔
سیکنڈ ، منٹوں اور منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے لیکن قریب یا دور کی قسم کی بھی آواز نہ سنائی دی اور پھر عمران خود کو سچ مچ احمق سمجھنے لگا اسے توقع تھی کہ اب وہ نا معلوم آدمی ضرور با لضرور آئے گا لیکن دو بج ر ہے تھے اور کائنات پرسنّا ٹے کی حکمرانی تھی۔ اُس نے سوچا کہ اب اس حماقت کا خا تمہ ہی کر دے۔ ممکن ہے وی نو جوان روشی کا کوئی گا ہک رہا ہو۔ عمران دروازے اور کھڑکیاں بند کرنے کے لئے اٹھا۔
ابھی وہ دروازے کے قریب بھی نہیں پہنچتا تھا کہ راہداری میں قدموں کی آوازیں گو نجنے لگیں۔ کوئی بہت تیزی سے اُسی طرف آرہاتھا۔ عمران بڑی پھرتی سے تین چار قدم پیچھے سے آیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی ۔ روشی دروازے میں کھڑی بری طرح ہا نپ رہی تھی۔ اس کے چہرے پرپر پیشانی آثار نہیں تھے۔
’’تم نے میرا کہنا نہیں مانا ‘‘۔ عمران آنکھیں نکال کر بولا ۔
’’بس تم اسی طرح بکو اس کیا کرو ‘‘روشی ایک صوفے میں گرتی ہوئی بولی… پھر اپنا وینٹی بیگ کھول کر دو پیکٹ نکالے اور انہیں عمران کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔’’کہ اپنے بقیہ دو پیکٹ بھی سنبھالو‘‘۔
عمران نے پیکٹوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر حیرت سے روشی کی طرف دیکھنے لگا۔
’’کچھ در قبل میرا ہارٹ فیل ہوتے ہوتے بچا ہے۔ روشی نے کہا۔ ” کیوں تمہیں یہ پیکٹ کہاں سے ملے ؟ ‘‘
’’بتاتی ہوں‘‘ز رادم لینے دو روشی نے کہا اور اُٹھ کر الماری سے وہسکی کی بوتل نکالی ۔ بڑے گلا س میں چھا نگل خالص وہسکی لے کر اس کی چسکیاں لینے لگی… پھر اس نے رومال سے ہونٹ خشک کرتے ہوئے کہا۔ ” مجھے نیند آ رہی تھی۔ ٹھیک ایک بجے کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں سمجھی شاید تم ہو ۔ میں نے اُٹھ کر دروازہ کھول دیا لیکن وہ تم نہیں تھے ایک دوسرا آدمی تھا۔ اُس نے مجھے یہ دونوں پیکٹ دیئے اور ایک لفافہ، جس پر میرا نام لکھا ہوا تھا اور پھر اس نے مجھے کچھ پوچھنے کی مہلت ہی نہیں دی، چپ چاپ واپس چلا گیا۔’’ روشی نے وینٹی بیگ سے و ہ لفافہ بھی نکال کر عمران کی طرف بڑھایا۔
عمران نے لفافے سے خط نکال کر میز پر پھیلاتے ہوئے ایک طویل سانس لی۔ تحریر تھا۔
’’روشی… تمہارے دوست کے بقیہ دونوں پیکٹ روانہ کر رہا ہوں ۔ لیکن تم انہیں کھول کر دیکھوگی نہیں ۔ ہوٹل کے باہر ایک نیلی کار موجود ہے۔ چپ چاپ اُس میں بیٹھ جاؤ، وہ تمہیں تمہارے فلیٹ تک پہنچادے گی۔ تم دونوں خواہ کہیں چھپو میری نظروں سے نہیں چھپ سکتے ۔ مجھے تم دونوں سے کوئی خاص پُر خاش نہیں ہے، ورنہ تم اب تک زندہ نہ ہوتے۔ تمہارا دوست ایک معمولی سا مجرم ہے جعلی نوٹوں کا دھندا کرتا ہے اور بس … اس سے کہو کہ چپ چاپ اس شہر سے چلا جائے ،ور نہ تم تو عرصے سے مجھے جانتی ہو، میں اور کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ یہاں سے اسی وقت چلی جاؤ ۔‘‘
عمران نے خط ختم کر کے روشی سے کہا۔ “تم نیلی کار میں بیٹھ گئیں ۔”