خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

   رات تاریک تھی اور آسما ن میں سیا ہ با دلوں کے مرغو لے چکراتے پھر رہےتھے ۔ کیپٹن فیاض کی مو ٹر سا ئیکل اندھیر ے کا سینہ چیرتی ہوئی چکنی سڑک پر پھسلتی جا رہی تھی۔کیر یر پر عمران بیٹھا الوؤں کی طرح دیدے پھرارہا تھا۔اس کے ہو نٹ بھنچے ہو ئے تھےاور نتھنے پھڑک رہے تھے ۔دفعتاًوہ فیاض کا شا نہ تھپتھپاکر بولا ۔

’’یہ تو طے شدہ بات ہے کہ کسی نے والدِ یک چشم کی کنجی کی نقل تیار کروائی ہے ‘‘۔

’’ہوں …لیکن آخر کیوں؟‘‘

’’پو چھ کر بتاؤں گا‘‘۔

’’کس سے؟‘‘

’’بیکراں نیلے آسمان سے۔ تاروں بھری رات سے ۔ہولے ہولے چلنے والی ٹھنڈی اداؤں۔ لا حول …ہواؤں سے‘‘۔

فیاض کچھ نہ بولا ۔ عمران بڑبڑا رہا تھا ۔’’لیکن شہید میاں کی قبر کی جا روب کشی کرنے والے کی کنجی ۔ اس کا حاصل کرنا نسبتاًآسان رہا ہوگا ۔بہر حال ہمیں اس عمارت کی تا ر یخ معلوم کرنی ہے ۔شائد ہم اس کے نواح میں پہنچ گئے ہیں ۔ موٹر سا ئیکل روک دو‘‘۔

فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔

’’انجن بن کردو‘‘۔

فیاض نے انجن بن کر دیا ۔ عمران نے اُس کے ہا تھ سے موٹر سائیکل لے کر ایک جگہ جھاڑیوں میں چھپا دی۔

’’آخر کر نا  کیا چا ہتے ہو ‘‘۔فیاض نے پو چھا ۔

’’میں پو چھتا ہو ں تم مجھے کیوں ساتھ لئے پھرتے ہو‘‘۔ عمران بولا۔

’’وہ قتل…اس عمارت میں ہوا تھا ‘‘۔

’’قتل نہیں حادثہ کہو ‘‘۔

’’حادثہ …کیا مطلب ؟‘‘ فیا ض حیرت سے بولا۔

مطلب  کےلیے دیکھو غیا ث اللغات صفحہ ایک سو بارہ ۔ویسے ایک سو بار ہ پر بیگم پارہ یاد آرہی ہے ۔بیگم پارہ کے ساتھ امرت دھا ر ا ضروری ہے ۔ ورنہ ڈیوڈ کی طرح چند یا صاف ‘‘۔

فیاض جھنجھلا کر خاموش ہوگیا۔

دونوں آہستہ آہستہ اس عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے ۔انھوں نے پہلے پوری عمارت کا چکر لگایا ‘پھر صدر دروازے کے قریب پہنچ کر رُک گئے۔

’’اوہ !‘‘عمران آہستہ سے بڑ بڑایا …’’تالا بند نہیں ہے‘‘۔

’’کیسے دیکھ لیا تم نے ۔ مجھے تو نہیں سجھا ئی دیتا‘‘۔ فیاض نے  کہا۔

’’تم اُلّو نہیں ہو ‘‘۔عمران بولا ۔’’چلو اِدھر ےسے ہٹ آؤ‘‘۔

دونوں  وہاں سے ہٹ کر مکان کی پشت پر آئے۔ عمران اوپر کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ دیوار کافی اونچی تھی۔ اُس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور دیوار پر روشنی ڈالنے لگا۔

’’میرا بوجھ سنبھال  سکوگے ‘‘۔اُس نے فیاض سے پوچھا ۔

’’میں نہیں سمجھا‘‘۔

’’تمہیں سمجھا نے کے لیے تو با قاعدہ بلیک بورڈ اور چاک اسٹک چا ہیے ۔ مطلب یہ کہ میں اُوپر جا نا چا ہتا ہوں ‘‘۔

’’کیوں ؟ کیا        یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اندر موجود ہے‘‘۔ فیاض نے کہا۔

’’نہیں ۔یو نہی جھک ما رنے کا ارادہ ہے ۔ چلو بیٹھ جا ؤ ۔میں تمہارے کاندھے پر کھڑا ہوکر …‘‘

’’پھر بھی دیوار بہت اونچی ہے‘‘۔

’’یا ر فضول بحث نہ کرو ‘‘۔ عمران اُکتا کر بو لا ۔’’ورنہ میں واپس جا رہا ہوں‘‘۔

طوعاً وکر ہاًفیاض دیوار کی جڑمیں بیٹھ گیا۔

’’اَماں جوتے تواتار لو ‘‘۔ فیاض نے کہا ۔

’’لے کر بھا گنا مت ‘‘۔عمران نے کہا اور جوتے اتار کر اُس کے کا ندھو ں پر کھڑا ہو گیا۔

’’چلو اب         اٹھو‘‘۔

فیاض آہستہ آہستہ اُٹھ  رہا تھا۔ عمران کا ہا تھ رو شندان تک پہنچ گیا اور دوسرے ہی لمحے وہ بندروں کی طرح دیوار پر چڑھ رہاتھا ۔فیاض منہ پھا ڑے حیرت سے اُسے گھوررہا تھا۔وہ سو چ رہا تھا کہ عمران آدمی ہے یا شیطان ۔ کیا یہ وہی احمق ہے جو بعض اوقات کسی کیچوے کی طرح با لکل بے ضررمعلوم ہو تا ہے۔

جن روشندانوں کی مدد سےعمران اُوپر پہنچا تھا انھیں کے ذریعہ دوسری طرف اتر گیا ۔چند لمحے وہ دیوار سے لگا کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ اس طرف بڑھنے لگا جد ھر کئی قدموں کی آہٹیں مل رہی تھیں۔

اور پھر اُسےیہ معلوم کر لینے میں کوئی دشواری نہ ہو ئی کہ وہ نا معلوم آدمی اسی کمرے میں تھے جس میں  اُس نے لاش دیکھی تھی ۔ کمرے کا دروازہ اندر  سے بند تھا لیکن دروازوں سے موم بتّی کی ہلکی زرد روشنی چھن رہی تھی ۔اس کے علاوہ والا ن با لکل تا ریک تھا ۔

عمران دیوار سے چپکاہو ا آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا ۔ لیکن اچانک اُس کی نظر شہید مرد کی قبر کی طرف اٹھ گئی جس کا تعویذاُوپر اٹھ رہا تھا۔تعویذ اور فرش  کے در میا نی خلا   ءمیں ہلکی سی رو شنی تھی ۔ اور اس خلاء سے دو خوفناک آنکھیں اندھیر ے میں گھو ر رہی تھیں۔

عمرا ن سہم کر رک گیا ۔وہ آنکھیں  پھاڑے قبر کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اچانک قبر سے ایک چیخ بلند ہوئی ۔ چیخ تھی یا کسی ایسی بندریا کی آواز جس کی گردن کسی کتے نے دبو چ لی ہو۔

عمران جھپٹ کر برابر والے کمرے گھس گیا ۔ وہ جا نتا تھا کہ اس کی چیخ کا رِدّعمل دو سرےکمروں والوں پر کیا ہو گا ۔وہ در وازے میں کھڑا قبرکی طرف دیکھا  رہا تھا ۔تعویذ ابھی تک اٹھا ہوا تھا اور خوفنا ک آنکھیں اب بھی چنگا ریا ں بر سا رہی تھی۔ دوسری چیخ کے ساتھ ہی برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک چیخ پھر سنائی دی جو پہلی  سے مختلف تھی ۔ غالباًیہ انھیں نا معلوم آدمیوں میں سے کسی  کی چیخ تھی۔

’’بھ …بھوت ‘‘۔کوئی کپکپاتی ہوئی سی آواز میں بولا اورپھر ایسا معلوم ہوا جیسے کئی آدمی صدر دروازے کی طرف بھاگ رہے ہوں۔

تھوڑی دیر بعد سنّاٹا چھا گیا ۔ قبر کا تعویذ برابر ہوگیاتھا ۔