خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’نہیں ۔ قدرتی موت ۔ گاؤں والوں کے بیان کے مطابق وہ عر صہ سے بیمار تھا ‘‘۔

’’اُس نے اس عمارت کو کس سے خریدا تھا ‘‘۔ عمران نے پو چھا ۔

’’آخر اُس سے کیا بحث ۔ تم عمارت کے پیچھے کیوں پڑگئے ہو‘‘۔

’’محبو بۂ یک چشم  کے وا لد بز رگوار سے یہ بھی پو چھو‘‘۔

’’ذرا آہستہ ۔ عجیب آد می ہو ‘اگر اُس نے سن لیا تو‘‘۔

’’سننےدو ۔ ابھی میں اُس سے اپنے  دل کی حالت  بیان کرو ں گا‘‘۔

’’یار عمران خدا کے لیے …کیسے آدمی ہو تم ‘‘۔

’’فضول با تیں مت کرو ‘‘۔عمران بو لا ۔’’ذرا جج صاحب سے وہ کنجی ما نگ لاؤ‘‘۔

’’اُوہ کیا ابھی‘‘۔

’’ابھی اور اس وقت ‘‘۔

فیاض اٹھ کر چلا گیا ۔ اُس کے جا تے ہی وہ دونوں خواتین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔

’’کہاں گئے ؟‘‘فیاض کی بیوی نے پوچھا ۔

’’شراب پینے‘‘۔عمران نے بڑی  سنجید گی سے کہا ۔

’’کیا؟‘‘فیا ض کی بیوی منہ  پھا ڑکر بولی ۔ پھر ہنسنے لگی۔

’’کھانا کھانے سے پہلے ہمیشہ تھوڑی سی پیتے ہیں ‘‘۔عمرا ن نے کہا۔

’’آپ کوغلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ ایک  ٹانک ہے ‘‘۔

’’ٹانک کی خالی بو تل میں شراب رکھنا مشکل تو نہیں ‘‘۔

’’لڑوانا چا ہتے ہیں آپ ‘‘۔ فیاض کی بیوی ہنس پڑی۔

’’کیا آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے‘‘۔ عمران نے رابعہ کو مخا طب کیا ۔

’’جی…جی…جی نہیں ‘‘۔ رابعہ  نروس نظر آنے لگی۔

’’کچھ نہیں ‘‘۔فیاض کی بیوی جلدی سے بو لی ۔’’عا دت ہے ۔ تیز رو شنی بر دا شت نہیں ہوتی ۔ اِسی لیے یہ چشمہ…‘‘

’’اُوہ …اچھا… ‘‘عمران بڑبڑایا ۔’’میں ابھی کیا سوچ رہا تھا ‘‘۔

’’آپ غا لباً یہ سوچ رہے تھے کہ فیا ض کی بیوی بڑی پھو ہڑ ہے ۔ ابھی تک کھا نا بھی نہیں تیا ر ہو سکا ‘‘۔

’’نہیں‘یہ با ت نہیں ہے ۔ میرے سا تھ بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں بڑی جلدی بھول جا تا ہو ں ۔سو چتے سو چتے بھول جا تاہوں کہ کیا سو چ رہا تھا ۔  ہو سکتا ہے کہ میں ابھی یہ بھو ل جا ؤ ں کہ آپ کون ہیں اور میں کہاں ہوں ۔ میرے گھر والے مجھے ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں ‘‘۔

’’مجھے معلوم  ہے‘‘۔ فیا ض کی بیوی مسکرائی۔

’’مطلب یہ کہ اگر مجھ سے کو ئی حما قت سرزد ہوتو بلا تکلف ٹوک دیجیے گا ‘‘۔

ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ فیاض وا پس آگیا۔

’’کھانے میں کتنی دیر ہے ‘‘۔اس نے اپنی بیوی سے پو چھا ۔

’’بس ذرا سی‘‘۔

فیاض نے کنجی کا  کو ئی تذکرہ نہیں کیا عمران کےانداز سے بھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بھول ہی گیا ہوکہ اُس نے فیاض کو کہا بھیجا تھا ۔

تھوڑی  دیر بعد کھا نا آگیا ۔

کھانا ختم ہو جا نے کے بعد بھی شائد جج صاحب کی لڑکی وہا ں بیٹھنا چا ہتی تھی لیکن فیاض کی بیوی اُسے کسی بہانے سے اٹھا لے گئی ۔ شائد فیاض نے اسے اشارہ  کر دیا تھا ۔ اُن کے جاتے ہی فیاض نے عمرا ن کو کنجی پکڑادی اور عمران تھوڑی دیر تک اُس کا جا ئزہ لیتے رہنے کے بعد بولا۔

’’ابھی حال ہی میں اس کی ایک نقل تیار کی گئی ہے۔اس کے سوراخ کے اندر موم کے کچھ زرّات ہیں۔ موم کا سانچہ ۔ سمجھتے ہونا‘‘۔