خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’سنو میا ں !دوآنکھوں والیاں مجھے بہتیر ی مل جا ئیں گی ۔یہاں تو معاملہ صرف اس ایک آنکھ کاہے۔ ہائے کیا چیز ہے ۔ کسی طرح اس کا چشمہ  اتراؤورنہ میں کھا نا  کھا ئے بغیر وا پس جا ؤں گا‘‘۔

’’بکو مت‘‘۔

’’میں چلا‘‘عمرا ن اٹھتا ہوا بولا۔

’’عجیب آدمی ہو ۔بیٹھو‘‘۔فیاض نے اُسے دوبا رہ بٹھا دیا ۔

’’چشمہ اترواؤ۔ میں اس کا قا ئل نہیں کہ محبوب سا منے ہوا ور اچھی طرح دیدار بھی نصیب نہ ہو‘‘۔

’’ذرا آہستہ بولو ‘‘۔ فیاض نے کہا ۔

’’میں تو ابھی خوداُس سے کہو ں گا‘‘۔

’’کیا کہوگے ‘‘۔فیاض بو کھلا کر بولا ۔

’’یہی جو تم سے کہہ رہا ہو ں ‘‘۔

’’یا ر خدا کے لیے …‘‘

’’کیا برائی ہے اس میں ‘‘۔

’’میں نےسخت غلطی کی‘‘۔ فیاض بڑبڑا یا ۔

’’واہ غلطی تم کرو اور بھگتوں میں ۔ نہیں فیا ض صا حب ۔ میں اُس سے کہو گا کہ براہ کرم چشمہ اتار دیجیے ۔ مجھے آپ سے مر مّت ہوگئی ہے…مرمّت …مرمّت …شائد میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے۔ بولو بھئی …کیا ہونا  چا ہیے ‘‘۔

’’محبت !‘‘فیا ض برا سا منہ بنا کر بولا ۔

’’جیؤ…محبت ہو گئی ہے ۔تو وہ اس پر کیا  کہے گی !‘‘

’’چنٹا ماردے گی‘‘۔ فیا ض  جھنجھلا کر بولا۔

’’فکر نہ کرو ۔ میں چا نٹے کو چانٹے پر روک لینے کے آرٹ سے بخوبی واقف ہوں۔۔۔۔۔طریقہ وہی ہوتا ہے جو تلوار پر تلوار روکنے کا ہوا کرتا تھا‘‘۔

’’یار خدا کے لیے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا ‘‘۔

’’عقلمندی کی بات کرنا ایک احمق کی کھلی ہوئی تو ہین ہے ۔ اب بُلا ؤنہ اُسے ۔ دِل کی جو حالت ہے بیان کر بھی سکتا ہوں اور نہیں بھی کر سکتا ۔وہ کیا ہوتا ہے جدا ئی میں …بولونا یار ۔ کون سا لفظ ہے‘‘۔

’’میں نہیں جا نتا ‘‘۔ فیاض جھنجھلا کر بولا ۔

’’خیر ہوتا ہوگا کچھ ۔ ڈکشنری میں دیکھ لوں گا ۔ ویسے میرا دل دھڑک رہاہے ۔ہاتھ کا نپ رہے ہیں لیکن ہم دونوں کے درمیان دھوپ کا چشمہ حائل ہے۔میں اسے نہیں بر دا شت کر سکتا‘‘۔

چند لمحہ خا موشی رہی۔ عمران میز پر رکھے ہوئے گلدان کو اس طرح گھورہاتھا جیسے اُس نے اُسے کو ئی سخت با ت کہہ  دی ہو۔

’’آج کچھ نئی با تیں معلوم ہوئی ہیں ‘‘۔فیاض نے کہا ۔

’’ضرور معلوم ہوئی ہوں گی ‘‘۔عمران احمقوں کی طرح سرہلاکر بولا ۔

’’مگر نہیں !پہلےمیں تمہیں ان زخموں کے متعلق بتاؤں ۔ تمہارا خیال  درست نکلا  ۔۔۔۔۔زخموں کی گہرا ئیاں بالکل  برابر ہیں ۔

کن زخموں کی بات کررہےہو‘‘۔عمران نے کہا۔

’’کیا تم کل والی لاش بھول گئے‘‘۔ فیاض نے کہا ۔

’’لاش …اَر …ہاں یاد آگیا ۔اُوہ وہ تین زخم۔ برابر نکلے…ہا…‘‘

’’اب کیا کہتے ہو ؟‘‘فیا ض نے پوچھا ۔

’’سنگ و آہن بے نیازِ غم نہیں ۔ دیکھ ہر دیوار ودرسے سرنہ مار ‘‘۔عمران نے گنگنا کرتان ماری اور میز پر طبلہ بجانے لگا ۔

’’تم سنجیدنہیں ہوسکتے ‘‘۔فیاض اُکتا کر بے دلی سے بولا ۔

’’اُس کا چشمہ اتروادینے کا وعدہ کر وتو میں سنجیدگی سے گفتگو کرنے پر تیار ہوں ‘‘۔

’’کوشش کروں گا بابا ۔ میں نے اُسے نا حق مدعو کیا‘‘۔

’’دوسری بات یہ کہ کھا نے میں کتنی دیر ہے‘‘۔

’’شائد آدھ گھنٹہ …ایک نوکر بیمار ہو گیا ہے ‘‘۔

’’خیر !ہاں جج صاحب سے کیا با تیں ہوئیں؟‘‘

’’وہی بتانے جارہا تھا۔کنجی ان کے پاس موجود ہے اور دو سری بات یہ کہ وہ عمارت انھیں اپنے خاندانی تر کے میں نہیں ملی تھی‘‘۔

’’پھر ؟‘‘ عمران توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا ۔

’’وہ دراصل ان کے ایک دوست کی ملکیت تھی اور اُس  دوست نے بھی اُسے خریدا تھا ۔اُن کی دوستی بہت پرانی تھی لیکن فکر معاش نے انھیں ایک  دو سرے سے جدا کردیا ۔آج سے پا نچ سا ل  قبل اچانک جج صاحب کو اس کا ایک خط ملا جو اسی عمارت سے لکھا گیا تھا۔اُس نے  لکھا تھا کہ اُس کی حالت بہت خراب ہے اور شائد وہ زندہ نہ رہ سکے ۔ لہٰذا مرنے سے پہلے اُن سے کو ئی بہت اہم بات کہنا چا ہتا ہے ۔

تقریباً پندرہ سال بعد جج صا حب کو اس دوست کے متعلق کچھ معلوم ہوا تھا لہٰذا ان کا وہاں پہچنا ضروری تھا ۔بہر حال وہ وقت پر نہ پہنچ سکے۔ان کے دوست کا انتقال ہو چکا تھا ۔معلوم ہوا کہ وہ وہا ں تنہا ہی رہتا تھا۔ ہا ں تو جج صاحب کو بعد میں معلوم ہواکہ مرنے وا لے نے وہ عمارت قا نو نی طور پر جج صاحب  کی طرف منتقل کردی تھی لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا کہ وہ اُن سے کیا کہنا چا ہتا تھا ‘‘۔

فیاض تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا  پھر بولا ۔’’ہاں ۔۔۔۔۔اوراُس کمرےکے پلا سڑ کے متعلق پو چھا تھا ۔جج صاحب نےاس سے لا علمی ظاہر کی۔ البتہ انھوں نے یہ بھی بتا یا کہ ان کی دوست کی موت اُسی کمرے میں واقع ہو ئی تھی‘‘۔

’’قتل‘‘۔عمران نے پو چھا ۔