خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

مو ٹر سائیکل شہر سے نکل کر ویرانے کی طرف جا رہی تھی اور عمران نےابھی تک فیا ض سے یہ بھی پو چھنے کی زحمت نہیں گوارا کی تھی کہ وہ اُسے کہا ں لے جا رہا ہے۔

آج پھر مجھے تمہا ری مدد کی ضرورت محسوس ہو ئی ہے‘‘۔فیاض بولا ۔

’’لیکن میں آج با لکل مفلس ہوں ‘‘۔عمران نے کہا ۔

’’اچھا !تو کیا تم سے کچھ اُدھا ر ما نگنے جا ر ہا تھا ؟‘‘

’’پتہ نہیں ۔میں یہ یہی سمجھ رہا تھا ۔اَرے با پ ۔پھر بھول گیا …لٹھ مارکا …پا ئجامہ …اور قمیص…لا حول ولاقوۃ …بو سکا …پلیز شٹ اَپ …عمران …یوفول‘‘۔

’’عمران !‘‘کیپٹن فیاض نے اُسے مخاطب کیا ۔

’’اوں۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔‘‘

’’تم آخر دوسروں کو بے و قو ف کیو ں سمجھتے ہو‘‘۔

’’کیونکہ …ہار …اَرے باپ یہ جھٹکے …یا ر ذرا چکنی زمین پر چلاؤ‘‘۔

’’میں کہتا ہوں کہ اب  یہ ساری حماقتیں ختم کر کے کو ئی ڈھنگ کاکام کرو ‘‘۔

’’ڈھنگ …لویار…اِس ڈھنگ پربھی کوئی بات یا د آنے کی کو شش کر رہی ہے‘‘۔

’’جہنم میں جا ؤ ‘‘۔فیاض نےجھلّا کر کہا ۔

’’اچھا ‘‘۔عمران نے بڑی سعا دت مندی سے گر دن ہلائی۔

موٹر سائیکل ایک کا فی طویل وعر یض عمارت کے سامنے رُک گئی جس کے پھاٹک پر تین چار با وردی کا نسٹبل نظر آرہے تھے۔

’’اب  اترو بھی ‘‘۔فیا ض نےکہا ۔

’’میں سمجھا شائد اب تم  مجھے ہینڈل پر بٹھاؤگے ‘‘۔عمران اتر تا ہوا بولا ۔

وہ اس وقت ایک دیہی علاقے میں کھڑے ہوئے تھے جو شہر سے زیا دہ دور‘نہ تھا ۔یہاں بس یہی ایک عما رت اتنی بڑی تھی ورنہ یہ بستی معمولی قسم کے کچے یا پکے مکا نو ں پر مشتمل تھی ۔اس عمارت کی بناوٹ طرز  قدیم سے تعلق رکھتی تھی ۔چاروں طرف سرخ رنگ کی لکھوری اینٹوں کی کافی بلند د یو اریں تھیں اور سامنے ایک بہت بڑا پھا نک تھا جو غالبًا صدر  دروازے کے طورپر استعما ل کیا جا تا رہا ہو گا۔

کیپٹن فیاض ، عمران کا ہاتھ پکڑے ہوئے عمارت میں دا خل ہو گیا ۔اب بھی عمران نے اُس سے یہ نہ پو چھا کہ وہ اُسے کہاں اور کس مقصد کے تحت لایا ہے ۔

دونوں ایک طویل دالان سے گز رتے ہوئے ایک کمرے میں آئے ۔اچانک عمران نے اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیے اور منہ پھیرکرکھڑا ہو گیا ۔اُس نے ایک لا ش دیکھ لی تھی جو فرش  پر اُوندھی پڑی تھی اور اس کے گرد خون پھیلا ہوا تھا۔

’’اِنّا لِلّہ و اِنّا الیه راجعون ‘‘۔وکپکپاتی  ہو ئی  آواز میں بڑبڑا رہا تھا ۔’’خدا اس کے متعلقین کو جوارِر حمت میں جگہ دے اور اُسے صبر کی تو فیق عطا فر ما ئے‘‘۔

’’میں تمہیں دعائے خیر کر نے کے لئے نہیں لا یا ‘‘۔فیا ض جھنجھلا کر بو لا۔

’’تجہیز و تکفین کے لیے چندہ وہا ں بھی ما نگ   سکتے تھے ۔اتنی دور کیو ں گھسیٹ لا ئے‘‘۔

’’یا ر عمران !خدا کے لیے بو رنہ کرو ۔میں تمہیں اپنا ایک بہترین دوست سمجھتا ہو ں ‘‘۔فیا ض نے کہا۔

میں بھی یہی سمجھتا ہو ں ۔ مگر پیا ر ے پا نچ روپے       سے زیادہ نہ دے سکوں گا ۔ابھی  مجھے لٹھی کا بو سکا خرید نا ہے …کیا …لٹھی …لو یا ر پھر بھول گیا ۔کیا مصیبت ہے‘‘۔

فیا ض چند لمحےکھڑا اُ سے گھورتا ر ہا پھر بو لا ۔

’’عما رت پچھلے پا نچ  بر سو ں سے      بند ر ہی ہے۔کیا ایسی حالت میں یہاں ایک لا ش کی مو جود گی حیرت انگیز نہیں ہے‘‘۔

’’با لکل نہیں ‘‘۔عمران سر ہلا کر بو لا ۔’’اگر یہ لا ش کسی امردو کے درخت پر پا ئی جا تی تو میں اُسے عجو بہ تسلیم  کر لیتا ‘‘۔

’یار تھوڑی دیر کے لیے سنجیدہ ہو جا ؤ‘‘۔

میں شروع ہی سے رنجیدہ ہو ں ‘‘۔عمران نے ٹھنڈی سانس لے کرکہا۔

رنجیدہ نہیں سنجیدہ ہوں ‘‘۔فیاض پھر جھنجھلاگیا۔

عمران خا مو شی سے لا ش کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ وہ آہستہ سے بڑبڑایا ۔’’تین زخم‘‘۔

فیا ض اُسے موڈ میں آتے دیکھ کر کچھ مسرور سا نظر آنے لگا۔

’’پہلے پو ری با ت سن لو ‘‘۔فیاض نے اُسے مخا طب کیا ۔

’’ٹھہرو ‘‘۔عمران لا ش پر جھکتا ہو ا بولا ۔وہ تھوڑی دیر تک زخموں کو غور ےسے دیکھتا رہا پھر سراٹھا کر  بو لا ۔’’پو ری با ت سنا نے سے پہلے یہ بتاؤکہ اس لاش  کے متعلق تم کیا بتا سکتے ہو ‘‘۔

’’آج با رہ بجے دن کویہ  دیکھی گئی ہے‘‘۔فیاض نے کہا ۔

’’اور  کچھ !‘‘عمران اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھ ر ہا تھا ۔

’’اور کیا !‘‘ فیا ض بو لا ۔

’’مگر  …شیخ چلّی دوئم …یعنی علی عمران ایم ۔ایس ۔سی ۔پی ۔ایچ ۔ڈی کا خیال کچھ اور ہے‘‘۔

’’کیا؟‘‘

’’سن کر مجھ اُلّو صحیح احمق بٹادو سمجھنے لگو گے ‘‘۔

’’اَرے یار کچھ بتا ؤ تو سہی ‘‘۔

’’اچھا سنو !‘قاتل  نے پہلا وار کیا ۔ پھر پہلے زخم سے پا نچ انچ کا فا صلہ نا پ کر دو سرا وار کیا ۔  اس کے بعد پا نچ کی نا پ پر تیسرا ۔اور اس با ت کا خاص خیا ل رکھا کہ زخم با لکل سید ھ میں ر ہیں ۔نہ ایک سوت ا ِدھر اور نہ ایک سوت اُدھر ‘‘۔

’’کیا  بکتے ہو ‘‘۔فیا ض بڑبڑا یا ۔

’’نا پ کر دیکھ لو مری جا ن ۔ اگر غلط نکلے تو میراسر قلم کر دینا ۔آں  …شائدمیں غلط بو ل گیا …میرے قلم پر سر رکھ دینا …‘‘  عمران نے کہا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ۔ اس نے ایک طرف پڑا ہوا ایک تنکا اٹھا یا اور اور جھک کر زخموں کے در میا نی فا صلے نا  پنے لگا ۔ فیا ض اُسے حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔

’’لو‘‘۔عمران اُسے تنکا پکڑا تا ہو ابو لا ۔’’اگر یہ تنکاپا نچ انچ کا نہ نکلے تو کسی کی ڈا ڑھی تلا ش کرنا ‘‘۔

’’مگر اس کا مطلب ‘‘۔ فیا ض کچھ سو چتا ہو ا بو لا ۔

’’اس کا مطلب یہ کہ قا تل و مقتول درا صل عا شق  و معشوق تھے‘‘۔

’’عمران پیا رے !ذرا سنجید گی سے‘‘۔

’’یہ تنکا بتا تا ہے کہ یہی با ت ہے ‘‘۔عمران نے کہا ۔’’اور اُردو کے پرانے شعرا   ء کا بھی یہی خیال ہے ۔کسی کا بھی دیو ان اٹھا کر دیکھ لو ۔ دو چار شعرا ء اس کی قسم کے ضرور مل جا ئیں گی جن سے میرے خیال کی تا ئید ہو جا ئے گی ۔چلو ایک شعر سن ہی لو :

موچ آئے نہ کلائی میں کہیں

سخت جاں ہم بھی بہت ہیں پیا رے

’’مت بکو اس کرو ۔ اگر میری مدد نہیں کر نا چا ہتے تو صاف صاف کہہ دو ‘‘۔ فیاض بگڑ کر بو لا ۔

’’فاصلہ تم نے نا پ لیا ۔ اب تم ہی بتا ؤ کہ کیا با ت ہو سکتی ہے ‘‘۔عمران نے کہا

فیا ض نے کچھ نہ بولا ۔