مقامی یو نیورسٹی سے ایم ۔ایس۔سی کی ڈگری لے کر انگلینڈچلا گیا تھا اور وہاں سے سائنس میں ڈاکڑیٹ لے کر واپس آیا تھا۔اس کا با پ رحمان محکمہ سر اغرسا نی میں ڈائرکٹر جنرل تھا ۔انگلینڈ سے وا پسی پر اس کے باپ نے کو شش کی تھی کہ اُسے کو ئی اچھا سا عہدہ دلادے لیکن عمران نے پرواہ نہ کی ۔
کبھی وہ کہتا کہ میں سا ئنسی آلات کی تجارت کر وں گا ۔کبھی کہتا کہ اپنی ذاتی انسٹی ٹیوٹ قائم کر کے سا ئنس کی خدمت کروں گا ۔بہر حال کبھی کچھ اورکبھی کچھ ۔گھر بھر اُس نے نا لاں تھا اور انگلینڈ سے واپسی کے بعد تووہ اچھا خاصا احمق ہو گیا تھا ۔اتنا احمق کہ گھر کے نو کر تک اُسے دن رات اُلّو بنا یا کر تے تھے۔اسے اچھی طرح لو ٹتے ۔اس کی جیب سے دس دس روپے کے نوٹ غائب کر دیتے اور اُسے پتہ تک نہ چلتا۔
باپ تو اس کی صورت د یکھنے کا بھی روادارنہیں تھا ۔صرف ماں ایسی تھی جس کی بدو لت وہ اس کو ٹھی میں مقیم تھا ورنہ کبھی کا نکال دیا گیا ہو تا ۔ا کلو تا لڑکا ہو نے کے با وجود بھی رحما ن صاحب اس سے عاجز آگئے تھے ۔
’’پاگل وہ اسی وقت نہیں معلوم ہو تے جب خاموش ہوں‘‘۔ثریا بو لی ۔’’دو چا ر گھنٹے بھی اگر ان حضرت کے ساتھ رہنا پڑے تو پتہ چلے‘‘۔
کیا کا نٹے روڑتے ہیں ؟‘‘جمیلہ نے مسکراکر کہا۔
’’اگر اُن میں اسی طرح دلچسپی لیتی رہیں تو کسی دن معلوم ہو جا ئے گا ـــــ‘‘ثریا منہ سکوڑ کر بو لی۔
کیپٹن فیاض کی مو ٹر سا ئیکل فراٹے بھر ر ہی تھی اور عمران کیر یر پر بیٹھا بڑ بڑا تا جا ر ہا تھا ۔’’شلوار کا لٹھا …بو سکی کی قمیص …شلوار کا بو سکا … لٹھی …لٹھی…کیا تھا ۔لا حول ولا قو ۃ بھو ل گیا …روکو…یار …روکو…شائد‘‘۔
فیاض نے مو ٹر سا ئیکل روک دی ۔
’’بھول گیا ‘‘۔عمران بولا ۔
’’کیا بھول گئے ؟‘‘
’’کچھ غلطی ہو گئی‘‘۔
’’کیاغلطی ہوگئی ‘‘۔فیاض جھنجھلا کر بو لا ۔’’یا ر کم از کم مجھے تو اُلّو نہ بنا یا کر و‘‘۔
’’شائد میں غلط بیٹھا ہو ا ہو ں ‘‘۔عمران کیر یر سے اُتر تا ہو ابولا ۔
’’جلدی ہے یا ر ‘‘۔فیاض نے گردن جھٹک کر کہا ۔
عمران اس کی پیٹھ ملائے ہوئے دوسری طرف منہ کر کے بیٹھ گیا ۔
’’مجھے بھی تماشہ بناؤ گے ۔سیدھے بیٹھونا ‘‘۔فیا ض جھنجھلا کر بولا ۔
’’تو کیامیں سر کے بَل بیٹھا ہواہوں‘‘۔
’’مان جاؤ پیارے ‘‘۔فیاض خوشامدانہ لہجے میں بو لا ۔’’لوگ ہنسیں گے ہم پر‘‘۔
’’یہ تو بڑی اچھی با ت ہے ‘‘۔
منہ کے بل گرو گے سڑک پر‘‘۔
’’اگر تقدیر میں یہی ہے توبند ہ بے بس وناچا ر ‘‘۔عمران نے دردیشانہ اندازمیں کہا ۔
’’خدا سمجھے تم سے ‘‘۔فیاض نے دانت پیس کرمو ٹر سا ئیکل اسٹارٹ کر دی۔اس کا منہ پچھّم کی طرف تھا اور عمران پو رب کی طرف ۔اور عمران اس طرح آگے کی طرف جھکا ہوا بیٹھا تھا جیسے وہ خود ہی موٹر سائیکل ڈرائیو کر رہا ہو ۔راہگیر انھیں دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
’’دیکھا ۔یا د آگیا ‘‘۔عمران چہک کر بولا ۔’’شلوار کا لٹھا اور قمیص کی بو سکی ۔میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کو ئی غلطی ہو گئی ہے‘‘۔
’’عمران تم مجھے احمق کیو ں سمجھتے ہو ‘‘۔فیاض نے جھنجھلا کر کہا ۔’’کم ازکم میرے سامنے تو اس خبطی پن سے با ز آجا یا کر و‘‘۔
’’تم خود ہو گئے خبطی ‘‘۔عمران بُراما ن کر بو لا ۔
’’آخر اس ڈھونگ سے کیا فا ئدہ‘‘۔
’’ڈھو نگ !اَرے کمال کر دیا ۔اُف فوہ ۔اس لفظ ’’ڈھو نگ ‘‘پر مجھے وہ با ت یا د آئی جسے اب سے ایک سال پہلے یا د آنا چا ہیے تھا ‘‘۔
فیا ض کچھ نہ بو لا۔مو ٹر سائیکل ہو اسے باتیں کر تی رہی۔
’’ہا ئیں !‘‘ عمران تھو ڑی دیر بعد بو لا ۔’’یہ مو ٹر سائیکل پیچھے کی طرف کیوں بھا گ رہی ہے۔اَر ےاس کا ہینڈل کیا ہوا؟‘‘پھر اس نے بے تحاشہ چیخناشروع کر دیا ۔’’ہٹو بچو !ہٹوبچو۔میں پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتا ‘‘۔
فیا ض نے مو ٹر سا ئیکل روک دی اورجھینپے ہوئے اند از میں راہگیروں کی طرف دیکھنے لگا ۔
’’شکر ہے خدا کا کہ خو دبخود رُک گئی ‘‘۔عمران اتر تا ہوا بڑبڑایا پھر جلدی سے بولا ۔۔۔۔۔’’لا حول والا قو ۃاس کا ہینڈل پیچھے ہے۔اب مو ٹر سائیکل بھی اُلٹی بننے لگیں ‘‘۔
’’کیا مطلب ہے تمہا را ۔کیوں تنگ کر رہےہو ؟‘‘ فیا ض نے بے بسی سے کہا ۔
’’تنگ تم کررہے ہو یا میں ، اُلٹی مو ٹر سائیکل پر لئے پھرتے ہو ا گر کوئی ایکسیڈ نٹ ہو جائے تو‘‘۔
’’چلوبیٹھو ‘‘۔فیا ض اُسے کھینچتا ہو ابو لا ۔
مو ٹر سائیکل پھر چل پڑی۔
’’اب تو ٹھیک چل رہی ہے ‘‘۔عمران بڑبڑا یا ۔