خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

اُسیرات کو  عمر ان بو کھلایا ہو افیاض کے گھر پہنچا ۔ فیاض سونے  کی تیا ری کر رہا تھا ۔ایسے مو قع پرا گر عمران کے بجا ئے کو ئی اورہو تا  تو وہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا ۔مگر عمران کا معا ملہ ہی اور کچھ اورتھا ۔ اُس کی بدولت آج اُس کے ہاتھ   ایسے کا غذات لگے  تھے جن کی  تلاش میں عرصہ سے محکمہ  سرا غر سانی سر ما  ررہا تھا ۔فیاض نے اُسے اپنے سو نے کمرے میں بلوایا۔

’’میں صرف ایک بات پو چھنے  کے لیے آیا ہوں‘‘۔عمران نے کہا۔

’’کیا بات ہے ‘کہو‘‘۔

’’عمران ٹھنڈی سانس  لے کر بولا ۔’’کیا تم کبھی کبھی میری قبر پر آیا  کرو گے‘‘۔

فیاض کا دل چا ہا  کہ اس کا سر دیوار سے ٹکرا کر سچ مچ اُس کی قبر تک جانے کا مو قع مہیا  کرے لیکن وہ کچھ  کہنے کے بجا ئے عمران کو گھورتا رہا۔

’’آہ تم خا موش ہو ‘‘۔عمران کسی ناکام عا شق کی طرح بولا ۔’’میں سمجھا  ! تمہیں شا ئد کسی اور سے  پر یم ہو گیا ہے ‘‘۔

’’عمران کے بچے !‘‘

’’رحمان کے بچے ‘‘۔عمران نے جلدی سے تصحیح کی ۔

’’تم کیوں میری زندگی تلخ کئے ہو ئے ہو‘‘۔

’’اوہو ۔۔۔۔کیا تمہاری ما دہ دوسرے کمرے میں سوتی ہے ‘‘۔عمران چا روںطرف دیکھتا ہو ابولا۔

’’بکواس مت کرو ۔اس وقت  کیوں آئے ہو؟‘‘

’’ایک عشقیہ خط دکھا نے  کے لیے ‘‘۔عمران جیب سے لفا فہ نکا لتا ہو ابولا ۔’’اُس کا شوہر  نہیں ہے صرف باپ ہے ‘‘۔

فیاض نے اُس کے ہاتھ سے لفا فہ لے کر جھّلا ہٹ میں پھا ڑنا  چا ہا۔

’’ہاں ہاں ‘‘۔ عمران نے اس کا ہا تھ پکڑتے ہو ئے کہا۔’’اَرے پہلے پڑھو تو میری جان ۔مزہ نہ آئے تو محصول ڈاک بذمہ خر ید ار ‘‘۔

فیاض نے طو عاًو کرہا خط نکا لا اور پھر جیسے ہی اُس کی نظریں اُس پر پڑیں ‘بیزاری کی ساری علا متیں چہرے سے غا  ئب ہو گیئں اوران کی جگہ استعجاب نےلے لی ۔خط ٹائپ کیا ہو اتھا۔

’’عمران ‘اگر وہ چرمی ہینڈ بیگ یا اس کے اندر کی کوئی چیز پو لیس  تک پہنچی تو تمہاری شامت  آجائے گی ۔اُسے واپس کردو ۔بہتری اسی میں ہے ورنہ کہیں کسی جگہ سے موت سےملا قات ضرور ہو گی ۔آج رات گیا رہ بجے ریس کورس  کے قریب ملو۔ہینڈ بیگ تمہارے سا تھ ہو نا  چا ہیے ۔اکیلے ہی آنا۔ورنہ اگر تم پا نچ ہزار  آدمی بھی سا تھ لاؤ گےتب بھی  گولی تمہارے ہی سینے پر پڑے گی‘‘۔

فیاض خط پڑھ کر چکنے بعد عمران کی طرف دیکھنے لگا۔

’’لاؤ ۔اُسے واپس کر آؤں ‘‘۔عمران نے کہا۔

’’پاگل ہو ئے ہو‘‘۔

’’ہاں !‘‘

’’تم ڈرگئے ‘‘۔فیاض ہنسنے لگا۔

’’ہا رٹ فیل ہو تے ہو تے بچا ہے‘‘۔عمران ناک کےبل بولا۔

’’ریوالورہے تمہارے پاس‘‘۔

’’ریوالور !‘‘عمران نے اپنے کا نوں میں انگلیاں ٹھو نستے ہوئے کہا ۔’’اَرے باپ رے باپ‘‘۔

’’اگر نہیں ہےتو میں تمہارے لیے لا ئسنس حاصل کر لو ں گا‘‘۔

’’بس کرم کرو ‘‘۔عمران برا سا منہ بنا کر بولا ۔’’اُس میں آواز بھی ہو تی ہے اور دھواں بھی نکلتا ہے۔میرا دل بہت کمزور ہے ۔لا ؤ ہینڈ بیگ وا پس کردو‘‘۔

’’کیا  بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو‘‘۔

اچھا تو  نہیں دو گے  ‘‘۔عمران آنکھیں نکال کر بو لا ۔

’’فضول مت بکو ‘مجھے نیند آرہی ہے‘‘۔

’’اَرے اُو …فیاض صاحب !ابھی میری شادی بھی نہیں ہوئی اور میں با پ  بنے  بغیر مرنا  پسند نہیں کروں  گا‘‘۔

’’ہینڈ بیگ تمہارے والد کے آفس میں بھیج  دیا  گیاہے‘‘۔

’’تب اُنھیں اپنے جوان بیٹے  کی لاش پر آنسو بہا نے پڑیں گے ۔کنفو شس نے کہا…‘‘

’’جا ؤ یا ر خدا کےلیے  سو نے دو‘‘۔

’’گیا رہ بجنے میں صرف پچاس منٹ رہ گئے ہیں ‘‘۔عمران گھڑی کی طرف دیکھتا ہو ابولا۔

’’اچھا چلو تم بھی  یہیں سو جاؤ‘‘۔فیا ض نے   بے بسی سے کہا ۔

کچھ دیر خاموشی  رہی پھر عمران نےکہا ’’کیا اُس عما رت کے گرد اَب بھی پہرہ ہے‘‘۔

’’ہاں  ۔کچھ اور آدمی بڑھا د یئے گئے ہیں ۔لیکن آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو۔آفیسر مجھ اس کا سبب پو چھتے  ہیں  اور میں ٹا لتا  رہتا ہو نں‘‘۔

’’اچھا تو اُٹھو  !یہ کھیل اسی وقت  ختم  کر دیں ۔تیس منٹ میں ہم وہاں پہنچیں گے ‘ باقی بچے  بیس منٹ !گیا رہ  سوا گیارہ تک سب کچھ ہو جانا چا ہیے‘‘۔

’’کیا ہو جا نا  چا ہیے‘‘۔

’’سا ڑھے  گیا رہ بجے بتا ؤں گا ۔اُٹھو  ۔میں اس وقت  عا لم تصور میں تمہا را عہدہ بڑھتا   ہو ا دیکھ رہا ہوں ‘‘۔

’’آخر کیوں !کوئی خاص بات ‘‘۔

علی عمران ایم ۔ایسی ۔سی ۔پی ۔ایچ  ۔ڈی کبھی  کوئی عام بات نہیں  کر تا  سمجھے ۔ناؤ گٹ اَپ ‘‘۔

فیاض نے طوعاً  و کر ہاً  لبا س تبد یل کیا ۔

تھوڑی دیر بعد اُ ن کی مو ٹر سا ئیکل بڑی تیزرفتار ی سے اُس د یہی علاقے کی طرف جا رہی تھی جہاں وہ عمارت تھی۔عمارت کے قریب پہنچ کر عمران نے فیاض سے کہا۔

’’تمہیں صرف اتنا کر نا ہے  کہ تم اس وقت تک   قبر  کے مجا ور  کو باتوں میں ا لجھا ئے رکھو جب تک میں وا پس  نہ آجا ؤں ۔سمجھے ۔اُس کے کمرے میں جاؤ۔ایک سکینڈ کے لیے  بھی اس کا سا تھ نہ چھوڑنا۔

عمارت کے گرد مسلح پہرہ تھا ۔ دستے  کے انچارج نے فیاض کو پہچان کر سلیوٹ کیا۔فیاض نے اس سے چند سر کا ری قسم کی رسمی با تیں کی اور سیدھا  مجا ور  کے حجرے کی طرف  چلا گیا جس کے دروازے کھلے ہوئے  تھے اور اندر مجا ور غا لباً مراقبے میں بیٹھا تھا ۔فیاض کی آہٹ  پر اُس نے آنکھیں کھول دیں جوا نگاروں کی طرح دہک رہی تھیں ۔

’’کیا ہے !‘‘اُس نے جھلا ئے ہو ئے  لہجے میں پو چھا ۔

’’کچھ نہیں میں د یکھنے آیا تھا ۔سب ٹھیک ٹھا ک  ہےیا نہیں ‘‘۔فیاض بولا۔

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے  ۔ان ہی گدھو ں  کی طرح پو لیس بھی دیوانی ہو گئی ہے‘‘۔

’’کن گد ھوں کی طرح‘‘۔

’’وہی جو سمجھتے ہیں کہ شہید مرد کی قبر میں خزانہ ہے‘‘۔

’’کچھ بھی ہو ‘‘۔فیاض نےکہا ۔’’ہم نہیں چا ہتے کہ یہاں روزانہ  لا شیں  بر آمد ہو تی ر ہیں ۔اگر ضرورت سمجھی گئی تو قبر کھدوائی جا ئےگی ‘‘۔

’’بھسم ہو جا ؤ گے ‘‘۔مجاور گرج کر بولا۔’’خون تھو کو گے  …مرو گے‘‘

’’کیا  سچ مچ اس میں خزانہ ہے‘‘۔