عمران اپنی ناک پر رُومال رکھے ہوئے دیوار کے سہارے میز کے سر ے کی طرف کھسک رہاتھا۔کمرے میں اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔شا ئد وہ سب اندھیرے میں ایک دوسرے پر گھونسے بازی کر نے لگے تھے ۔عمران کا ہاتھ آہستہ سے میز کے سرے پر رینگ گیا اور نا کامی نہیں ہوئی۔جس چیز پر شروع ہی سے اُس کی نظر رہی تھی‘اس کے ہا تھ آچکی تھی۔یہ بوڑھے کا چرمی ہینڈ بیگ تھا۔
واپسی میں کسی نے کمرے کے دروازہ پر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کو شش کی لیکن اپنے سا منے کے دو تین دا نتوں کو روتاہوا ڈھیر ہو گیا ۔عمران جلد سے جلد کمرے سےنکل جانا چا ہتا تھا کہ کیو نکہ اس کے حلق میں بھی جلن ہونے لگی تھی۔ گڑیا کے منہ سے نکلا ہوا غبار اب پورے کمرے میں پھیل گیا تھا۔
کھا نسیوں اور گا لیوں کا شور پیچھے چھوڑتا ہوا وہ بیرونی دَروازے تک پہنچ گیا ۔گلی میں نکلتے ہی وہ قریب ہی کی ایک دوسری گلی میں گھس گیا۔فی الحال سڑک پر نکلنا خطر ناک تھا۔وہ کافی دیر تک پیچ در پیچ گلیو ں میں چکراتا ہوا ایک دوسری سڑک پر آگیا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھا ہوا اس طرح اپنے ہونٹ ر گڑ رہا تھا جیسے سچ مچ اپنی محبوبہ سے ملنے کے بعد لپ اسٹک کے دھبّے چھڑا رہاہو۔
دوسری صبح کیپٹن فیاض کے لیے ایک نئی دردسری لے کر آئی ۔حالات ا یسے تھے کہ براہِ راست اُسے ہی اس معاملے میں بھی اُلجھنا پڑا۔ورنہ پہلے تو معاملہ سول پو لیس کے ہاتھ میں جاتا۔بات یہ تھی کہ اس خوفنا ک عمارت سے تقریباًایک یاڈ یڑھ فرلانگ کے فا صلہ پر ایک نوجوان کی لا ش پائی گئی جس کے جسم پر کتھئی پتلون اور چمڑے کی جیکٹ تھی۔کیپٹن فیاض نے عمران کی ہدا یت کے مطابق پچھلی رات کو پھر نگرانی کے لیے کا نسٹیبلون کا ایک دستہ تعینات کر ا دیا تھا۔اُن کی رپورٹ تھی کہ رات کو کوئی عمارت کے قریب بھی نہیں آیااورنہ انھوں نے قرب وجوار میں کسی قسم کی کوئی آواز ہی سنی تھی لیکن پھر بھی عمارت سے تھوڑے فا صلہ پر صبح کو ایک لاش پائی گئی۔
جب کیپٹن فیاض کو لاش کی ا طلاع ملی تو اُس نے سوچنا شروع کردیا کہ عمران نے عمارت کےگرد مسلح پہرہ بٹھانے کی تجویز کیوں پیش کی تھی؟
اُس نے وہاں پہنچ کر لاش کا معائنہ کیا ۔کسی نے مقتول کی دا ہنی کنپٹی پر گو لی ماری تھی۔کا نسٹیبلوں نےبتایا کہ انھوں نے پچھلی رات فائر کی آواز بھی نہیں سُنی تھی۔
کیپٹن فیاض وہاں سے بو کھلایا ہو اعمران کی طرف چل دیا۔اس کی طبیعت بُری طرح جھلاّ ئی ہوئی تھی ۔وہ سوچ رہا تھا کہ اگر عمران نے ڈھنگ کی کوئی بات بتانے کے بجائے میرؔو غالبؔ کے اُوٹ پٹا نگ شعر سنانا شروع کر دیئے تو کیا ہو گا۔بعض اوقات اُس کی بے تکی باتوں پر اس کا دِل چا ہتا تھا کہ اُسے گولی ماردے ۔مگر پھر اس کی شہرت کا کیا ہوتا۔اُس کی ساری شہرت عمران ہی کے دم سے تھی۔وہ اس کےلیے ا ب تک کئی پیچیدہ مسائل سلجھا چکا تھا۔بہرحال کام عمران کرتا تھا اور اخبارات میں فیاض کا چھپتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اسے عمران کا سب کچھ برداشت کرنا پڑتاتھا۔
عمران اُسے گھر پر ہی مل گیا لیکن عجیب حا لت میں ۔وہ اپنے نوکر سلیمان کے سر کنگھا کر رہاتھا اور ساتھ ہی ساتھ کسی دوراندیش ماں کے سے انداز میں اُسے نصیحتیں بھی کئے جا رہا تھا جیسے ہی فیاض کمرے میں داخل ہوا عمران نے سلیمان کی پیٹھ پر گھو نسہ مار کرکہا ۔اَبے تو نے بتا یا نہیں کہ صبح ہوگئی ‘‘۔
سلیمان ہنستا ہوا بھا گ گیا۔
’’عمران تم آدمی کب بنو گے‘‘۔فیاض ایک صوفے میں گر تا ہوا بولا۔
’’آدمی بننے میں مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔البتہ میں تھا نیدار بننا ضرور پسند کروں گا‘‘۔
’’میری طرف سے جہنم جانا پسند کرو۔لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے پچھلی رات اس عمارت پر پہرہ کیوں لگوایا تھا‘‘۔
’’مجھے کچھ بھی یاد نہیں‘‘۔عمران ما یو سی سے سرہلاکر بولا۔’’کیا وا قعی میں نےکو ئی ایسی حرکت کی تھی‘‘۔
’’عمران !‘‘فیاض نے بگڑ کر کہا۔’’اگر میں آئندہ تم سےکوئی مددلوں تو مجھ پر ہزار بار لعنت‘‘۔
’’ہزار کم ہے ‘‘۔عمران سنجیدگی سے بولا۔’’کچھ اور بڑ ھو تو میں غور کرنے کی کو شش کرو ں گا‘‘۔
فیاض کی قوت برداشت جواب دے گئی وہ گرج کر بولا ۔’’جا نتے ہو ۔آج صبح وہاں سےایک فر لا نگ کے فا صلے پر ایک لا ش اور ملی ہے‘‘۔
’’ارے تو بہ !‘‘عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
کیپٹن فیاض کہتا رہا۔’’تم مجھے اند ھیرے میں ر کھ کر نہ جا نے کیا کر نا چا ہتے ہو ۔حالات اگر کچھ اور بگڑے تو مجھےہی سنبھا لنے پڑ یں گے لیکن کتنی پر یشا نی ہو گی۔اس نے اُس کی دا ہنی کنپٹی پر گو لی ما ری ہے ۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ حرکت کس کی ہے‘‘۔
’’اُن کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے۔‘‘عمران بڑبڑایا پھر سنجید گی سے پو چھا ۔۔۔۔’’پہرہ تھا وہاں‘‘۔
’’تھا ۔میں نے رات ہی یہ کام کر لیا تھا‘‘۔
’’پہرے والوں کی رپو رٹ‘‘۔
’’کچھ بھی نہیں ۔انھوں نے فا ئر کی آواز بھی نہیں سنی‘‘۔
’میں یہ نہیں پو چھ رہا ہوں ۔کیا کل بھی کسی نے عمارت میں دا خل ہونےکی کوشش کی تھی‘‘۔
’’نہیں لیکن میں اس لاش کی با ت کر رہا تھا‘‘۔
’’ کیے جاؤ ۔میں تمہیں رو کتا نہیں ۔لیکن میرے سوالات کے جوابات بھی دیئے جاؤ۔قبر کے مجاور کی کیا خبر ہے ۔وہ ا ب بھی و ہیں موجود ہے یا غا ئب ہو گیا‘‘۔
’’عمران خدا کے لیے تنگ مت کرو‘‘۔
’’اچھا تو علی عمران ایم ۔ایس ۔سی۔ایچ ۔ڈی کوئی گفتگو نہیں کر نا چا ہتا‘‘۔
’’تم آخر اس خبطی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو‘‘۔
’’خیر جانے دو ۔اب مجھے اس لاش کے متعلق کچھ اور بتاؤ‘‘۔
’’کیا بتاؤں ۔ بتا تو چکا ۔صورت سے بڑا آدمی نہیں معلوم ہو تا۔خو بصورت اور جوان ‘جسم پرچمڑے کا جیکٹ اور کتھئی رنگ کا پتلون ‘‘
’’کیا ؟‘‘عمران چو نک پڑا ۔چند لمحے اپنے ہو نٹ سیٹی بجانے والے انداز میں سکو ڑے فیاض کی طرف د یکھتا رہا پھر ایک ٹھنڈی سا نس لے کر کہا۔
بے خطر کُو دپڑا آتش نمرود میں عشق
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کو ئی بندہ نواز
’’کیا بکواس ہے؟‘‘فیاض جھنجھلا کر بولا’’اول تو تمہیں اشعار ٹھیک یاد نہیں ۔پھر اس کا مو قع کب تھا…عمران میرا بس چلے تو تمہیں گو لی ماروں‘‘۔
’’کیوں شعر میں کیا غلط ہے؟‘‘
’’مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں لیکن مجھے دو نوں مصرعے بے ربط معلوم ہو تے ہیں…لا حول ولا قوۃ…میں بھی انہیں لغویات میں الجھ گیا خدا کے لیے کام کی باتیں کرو۔تم نہ جا نے کیا کر رہے ہو ‘‘۔فیاض نےجھنجھلا کر کہا۔
’’میں آج رات کو کام کی بات کرو ں گا اورتم بھی میرے سا تھ ہو گےلیکن ایک سکینڈ کےلیے بھی وہاں سے پہرہ نہ ہٹایا جائے ۔تمہارے ایک آدمی کو ہر وقت مجاور کے کمرے میں موجود رہنا چا ہیے ۔بس اب جاؤ ۔میں چائے پی چکا ہوں ورنہ تمہاری کا فی مدارات کر تا۔وہاں ‘محبوبۂ یک چشم کو میرا پیغام پہنچا دینا کہ رقیب رُو سیاہ کا صفایا ہو گیا۔باقی سب خیریت ہے‘‘۔
’’ عمران میں اتنی آسا نی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔تمہیں ابھی اور اسی وقت سب کچھ بتا نا پڑے گا‘‘۔
’’اچھا تو سنو!لیڈی جہانگیر بیوہ ہونے والی ہے ۔اس کے بعدتو کو شش کرو گے کہ میری شادی اس کےساتھ ہوجائے …کیا سمجھے؟‘‘
’’عمران !‘‘فیاض یک بیک مار بیٹھنے کی حد تک سنجیدہ ہوگیا’’یس باس ‘‘۔ بکواس بند کرو۔اب میں تمہاری زندگی تلخ کردوں گا۔‘‘
’’بھلا وہ کس طرح سو پر فیاض‘‘۔