’’د یکھئے !‘‘اُس نے ہا نپتےہو ئے کہا۔’’مجھے جلدی واپس جانا ہوگا۔ آپ کہاں اتر یں گے‘‘۔
’’آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا‘‘۔عمران پر سکون لہجے میں بولا۔
’’آ پ سے مطلب !آپ کو ن ہوتے ہیں پو چھنےوالے؟‘‘
’’دیکھا …آگیا ناغصّہ ۔ویسے یہ بات بہت اہم ہے۔اگر پو لیس کے کانوں تک جا پہنچی تو ز حمت ہو گی۔۔۔۔۔ممکن ہے کوئی ایسی کا روائی کر سکوں جس کی بناء پر پو لیس یہ سوال ہی نہ اُٹھائے‘‘۔
رابعہ کچھ نہ بولی ۔وہ اپنے خشک ہو نٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔
’’میں یہ بھی پو چھوں گا کہ آپ کہا ں تھیں ‘‘۔عمران نے پھر کہا۔’’کیو نکہ مجھے معلوم ہے ۔ مجھے آپ صرف اتنا بتا د یجیے کہ آپ کے سا تھ کون تھا‘‘۔
’’مجھے پیاس لگ رہی ہے‘‘۔رابعہ بھّرائی ہوئی آواز میں بو لی۔
’’اُوہو !توروکئے۔کیفے نبراسکا نزدیک ہی ہے‘‘
کچھ آگے چل کر رابعہ نے کا ر کھڑی کردی اور وہ دونوں اتر کر فٹ پا تھ سے گز رتے ہوئے کیفے نبراسکامیں چلے گئے۔
عمران نے ایک خالی گوشہ منتخب کیا اور وہ بیٹھ گئے۔چائے سے پہلے عمران نےایک گلا س ٹھنڈےپانی کے لیے کہا۔
’’مجھے یقین ہے کہ وا پسی میں کنجی اُسی کے پاس رہ گئی ہوگی‘‘۔عمران نے کہا۔
’’کس کے پاس‘‘۔رابعہ پھر چونک پڑی۔
’’فکر نہ کیجیے ۔ مجھے یقین ہے کہ اس نےآپ کو اپنا صحیح نام اور پتہ ہر گز نہ بتایا ہوگا اور کنجی واپس کر دینے کے بعد اب تک ملا بھی نہ ہوگا‘‘۔
رابعہ بالکل نڈھال ہوگئی اُس نے مردہ سی آواز میں کہا۔’’پھر اب آپ کیا پو چھنا چا ہتے ہیں‘‘۔
’’آپ اُس سے کب اورکن حالات میں ملی تھیں ‘‘۔
’’اب سے دو ماہ پیشتر‘‘۔
’’کہا ملا تھا؟‘‘
’’ایک تقریب میں ۔مجھے یاد نہیں کہ کس نے تعارف کرایا تھا‘‘۔
تقریب کہاں تھی؟‘‘
’’شائد سر جہا نگیر کی سا لگرہ کا مو قع تھا‘‘۔
’’اُوہ …!‘‘عمران کچھ سو چنے لگا ۔پھر اس نے آہستہ سے کہا ۔’’کنجی آپ کو اُس نے کب وا پس کی تھی‘‘۔
’’پندرہ کی شام کو‘‘۔
’’اورسولہ کی صبح کو لاش پا ئی گئی ‘‘۔عمران نے کہا۔
رابعہ بُری طرح کا نپنے لگی ۔ وہ چائے کی پیا لی میز پر رکھ کر کرسی کی پُشت سے ٹِک گئی۔اس کی حا لت باز کے پنجے میں پھنسی ہوئی کسی ننھّی منّی چڑیا سے مشا بہ تھی۔
’’پندرہ کے دن بھر کنجی اُ س کے پاس رہی۔ اُس نےاُس کی نقل تیار کرا کے کنجی آپ کو واپس کردی ۔اس کے بعد پھر وہ آپ سے نہیں ملا۔ غلط کہہ رہا ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔وہ آہستہ سے بو لی ۔’’مجھ سے کہا کرتا تھا کہ وہ ایک سیّا ح ہے جیفر یر ہوٹل میں قیام پذیر ہے لیکن پر سوں میں وہاں گئی تھی‘‘۔
وہ خاموش ہو گئی اس پر عمرا ن نے سر ہلا کر کہا۔’’اور آپ کو وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی آدمی وہاں کبھی ٹھہراہی نہیں ‘‘۔
’’جی ہاں ‘‘۔را بعہ سر جھکا کر بولی۔
’’آپ سے اس کی دو ستی کا مقصد محض اتنا تھا کہ وہ کسی طرح آپ سے اُس عمارت کی کنجی حا صل کرلے‘‘۔
’’میں گھر جا نا چا ہتی ہوں۔میری طبیعت ٹھیک نہیں‘‘۔
’’دو منٹ ‘‘۔عمران نے ہاتھ ہلا کر کہا۔’’آپ کی زیادہ تر ملا قا تیں کہا ں ہو تی تھیں‘‘۔
’’ٹپ ٹا پ نا ئٹ کلب میں ‘‘۔
’’لیڈی جہا نگیر سے اُس کے تعلقات کیسے تھے؟‘‘
’’لیڈی جہا نگیر …‘‘رابعہ چڑھ کربولی۔’’آخر اِن معاملات میں آپ اُن کا نام کیوں لے رہے ہیں‘‘۔
’’کیا آپ میرے سوال کا جواب نہ دیں گی‘‘ عمران ےنے بڑی شرافت سے پو چھا۔
’’نہیں ! میرا خیال ہے کہ میں نےاُن دونوں کو کبھی نہیں ملتے د یکھا‘‘۔
’’شکریہ ! اب میں اُس کا نا م نہیں پو چھو ں گا۔ ظاہر ہے کہ اُس نے نام بھی صحیح نہ بتایا ہو گا۔ لیکن اگر آپ اُس کا حلیہ بتا سکیں تو مشکور ہوں گا‘‘۔
رابعہ کو بتا ناہی پڑا ۔ لیکن وہ بہت زیادہ مغموم تھی اور ساتھ ہی ساتھ خا ئف بھی۔