خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’میرا خیال ہے کہ وہ عمارت آسیب زدہ ہے‘‘۔فیاض نےکہا۔

’’ہو سکتا ہے ۔کاش وہ میری ملکیت نہ ہوتی ۔کیا آپ لوگ مجھے اجا زت دیں گے‘‘۔

’’معاف کیجیے گا ‘‘۔فیاض اُٹھتا ہو ا بولا ۔’’آپ کو بہت تکلیف دی مگر معاملہ ہی ایسا ہے‘‘۔

فیاض اور عمران با ہر نکلے۔فیاض اُس پر جھلاّیا ہو ا تھا ۔ با ہر آتے ہی برس پڑا ۔’’تم ہر جگہ  اپنے گدھے پن کا ثبوت دینے لگتے ہو‘‘۔

’’اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمہیں گو لی ما ردوں ‘‘۔عمران بولا۔

’’کیوں ؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘

’’تم نے یہ کیو ں نہیں پو چھا کہ محبو بۂ یک چشم چودہ تار یخ کی رات کہا ں تھی‘‘۔

’’کیوں بور کر تے ہو ۔ میرا موڈ ٹھیک نہیں ہے‘‘۔

’’خیر مجھے کیا۔میں خود ہی پو چھ لو ں گا ‘‘۔ عمران نے کہا ۔’’سر جہا نگیر کو جا نتے ہو‘‘۔

’’ہاں کیوں ؟‘‘

’’وہ میرا ر قیب ہے‘‘۔

’’ہوگا ۔تو میں کیا کروں ‘‘۔

’’کسی طرح پتہ لگاؤ کہ وہ آج کل کہا ہے‘‘۔

’’میرا وقت برباد نہ کرو ‘‘۔ فیاض جھنجھلا گیا۔

’’تب پھر تم بھی وہیں جاؤ جہاں  شیطان قیامت کے دن جا ئے گا‘‘۔عمران نے کہا اور لمبےلمبے ڈگ بھرتا ہوا جج صاحب کے گیراج کی طرف چلا گیاجہاں سے رابعہ با ہر جا نے کے لیے کار نکال  رہی تھی۔

’’مِس سلیم ‘‘۔عمران کھنکار کر بولا۔’’شائد ہمارا تعارف پہلے بھی ہو چکا ہے‘‘۔

’’اُوہ …جی ہاں…جی ہاں …‘‘را بعہ جلدی سے بولی۔

’’کیاآپ مجھے لفٹ دینا پسندکریں گی‘‘۔

’’شوق سے آیئے‘‘۔

رابعہ خود ڈرائیوکر رہی تھی۔۔۔۔۔عمران شکریہ ادا کرکے اُس کے برابر بیٹھ گیا۔

’’کہاں اُتر یئے گا؟‘‘را بعہ نے پو چھا۔

’’سچ پو چھئے تو میں اترنا ہی نہ چا ہو ں گا‘‘۔

را بعہ صرف مسکراکر رہ گئی ۔ اس وقت اس نے ایک مصنوعی  آنکھ لگا رکھی تھی اس لیے آنکھوں پر عینک نہیں تھیں ۔

فیاض کی بیوی نے اُسے عمران کے متعلق بہت کچھ بتایا تھا ۔ اِس لیے وہ اُسے احمق سمجھنے کے لیے تیا ر نہیں تھی۔

’’کیا آپ کچھ نا راض ہیں ‘‘۔عمران نےتھوڑی دیر بعد پو چھا۔

’’جی !‘‘رابعہ چونک پڑی ۔’’نہیں تو‘‘ وہ ہنسنے لگی۔

’’میں نے کہا شا ئد۔مجھ سے لوگ عمو ماًنا را ض ہی  رہا کر تے ہیں۔ان  کا کہنا ہے کہ میں انھیں خواہ مخواہ  غصّہ دلا دیتا ہوں‘‘۔

’’پتہ نہیں۔مجھے توآپ نے ابھی تک غصّہ نہیں دلایا‘‘۔

’’تب تو یہ میری خوش قسمتی ہے‘‘۔عمران نے کہا ۔’’ویسے اگر میں کو شش کرو ں تو آپ کو غصّہ دلاسکتا ہوں‘‘۔

رابعہ پھر ہنسنے لگی ۔’’کیجیے کو شش‘‘۔اُس نے کہا۔

’’اچھا تو آپ شائد یہ سمجھتی ہیں کہ یہ نا ممکن ہے‘‘۔عمران نے احمقوں کی طرح ہنس کر کہا۔

’’میں تو یہی سمجھتی ہوں ۔مجھے کبھی غصہ  نہیں آتا‘‘۔

’’اچھا تو سنبھلئے ‘‘۔عمران نے اس طرح کہا جیسے ایک شمشیر زن کسی  دو سرے  شمشیرزن کو للکارتا ہوا کسی گھٹیا فلم میں دیکھا جا سکتا ہے۔

’’رابعہ کچھ نہ بولی۔ وہ کچھ بور ہونے لگی تھی۔

’’آپ چودہ تار یخ کی رات کو کہاں تھیں ؟‘‘عمران نے اچا نک پو چھا۔

’’جی‘‘۔رابعہ بے اختیار چونک پڑی۔

’’اُوہ ! اسٹیر نگ سنبھالئے ۔کہیں ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے ‘‘۔عمران بولا۔۔۔۔۔’’دیکھئےمیں نے آپ کو غصہ  دلا دیا نا۔پھر اُس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اپنی ران پیٹنے لگا۔

رابعہ کی سانس پھو لنے لگی تھی اور اُس کے ہا تھ اسٹیرنگ پر کا نپ رہے تھے۔