’’کب کی بات ہے؟‘‘فیاض نے پو چھا۔
’’تیس سال پہلےکی اور یہ ملاقات بڑے عجیب حالات میں ہوئی تھی۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں آکسفورڈمیں قانون پڑھ رہا تھا۔ایک بار میں ایک ہنگا مے پھنس گیا جس کی و جہ سو فیصدی غلط فہمی تھی۔ اب سے تیس سال پہلے کا لندن نفرت انگیز تھا۔انتہائی نفرت انگیز ۔اسی سے انداز ہ لگایئے کہ وہاں کے ایک ہوٹل پر ایک ایسا سائن بورڈتھاجس پر تحریر تھا:
ہندوستانیوں اور کتّوں کا دا خلہ ممنوع ہے‘‘۔میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بھی ہے یا نہیں ۔بہر حال ا یسےماحول میں اگر کسی ہندوستانی اورکسی انگریز کے درمیان میں کو ئی غلط فہمی پیدا ہو جا ئے تو انجام ظاہر ہی ہے ۔
وہ ایک ریستوران تھا جہاں ایک انگریز سے میرا جھگڑا ہو گیا۔علاقہ ایسٹ انڈیا کا تھاجہاں زیادہ تر جنگلی رہتے تھے۔آج بھی جنگلی ہی رہتے ہیں ۔انتہائی غیر مذہب لوگ جو جا نوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں…ا
وہ میں خواہ مخواہ بات کو طوالت دے رہاہوں۔مطلب یہ کہ جھگڑا بڑ ھ گیا۔سّچی بات تو یہ ہےکہ میں خود ہی کسی طرح جان بچا کر نکل جانا چا ہتا تھا۔اچانک ایک آدمی بھیڑکو چیرتاہوا میرے پاس پہنچ گیا۔وہ ایاز تھا۔اُسی دن میں نے اُسے پہلے پہل دیکھااور اس رُوپ میں دیکھا کہ آج تک متحیر ہوں۔
وہ مجمع جو مجھے مار ڈالنے پر تل گیا تھا ایاز کی شکل دیکھتے ہی تتر بتر ہوگیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے بھیڑوں کے گلے میں کوئی بھیڑ یا گھس آیاہو۔بعد کو معلوم ہواکہ ایاز اس علاقے کےبااثر ترین لوگوں میں سے تھا۔ ایسا کیوں تھا۔یہ مجھےآج تک نہ معلوم ہو سکا۔ہمارے تعلقات بڑھے اور بڑھتے گئے لیکن میں اس کے متعلق کبھی کچھ نہ جان سکا۔ وہ ہندو ستانی ہی تھا لیکن مجھے یہ تک نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کس صوبہ یا شہر کا با شند ہ تھا‘‘۔
جج صاحب نے خاموش ہوکر ان کی طرف سگا ر کیس بڑھایا ۔ عمران خاموش بیٹھا چھت کی طرف گھو رہاتھا ۔ایسامعلوم ہو رہا تھا جیسے فیاض زبردستی کسی بے وقوف کو پکڑ لا یا ہو۔بے وقوف ہی نہیں بلکہ ایسا آدمی جوان کی گفتگو ہی سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔فیاض نے کئی با ر اُسے کنکھیوں سے دیکھا بھی لیکن وہ خاموش ہی رہا۔
’’شکریہ!‘‘ فیاض نے سگار لیتے ہوئے کہا اور پھر عمران کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔’’جی!یہ نہیں پیتے‘‘۔
اس پر بھی عمران نے چھت سے نظر یں نہ ہٹا ئیں ۔ ایسا معلوم ہورہا تھاجیسے وہ خود کو تنہا محسوس کر رہا ہو۔جج صاحب نےبھی عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھا لیکن کچھ بولے نہیں۔
ا چانک عمران نے ٹھنڈی سا نس لےکر ’’اللہ‘‘کہا اور سید ھا ہوکر بیٹھ گیا۔ وہ منہ چلاتا ہو ااُن دونوں کی طرف احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔
اس پر بھی فیاض کو خوشی ہوئی کہ جج صاحب نے عمران کے متعلق کچھ نہیں پو چھا ۔فیاض کوئی دوسرا سوال سوچ رہاتھااور عمران ساتھ ہی ساتھ یہ دُعا بھی کر رہاتھا کہ عمران کی زبان بند ہی رہےتو بہتر ہے۔مگر شا ئد عمران بشرہ شنا سٍ۱ ی کا بھی ما ہر تھا کیو نکہ دو سرے ہی لمحہ میں اُس نے بکنا شروع کردیا۔’’ہاں صاحب ‘ اچھے لوگ بہت کم زندگی لے کر آتے ہیں ۔ ایاز ؔصاحب تو ولی اللہ تھے۔ چرخ کج رفتار رونا ہنجار کب کسی کو…غالب کا شعرہے…‘‘
لیکن قبل اس کے کہ عمران شعر سناتا فیاض بول پڑا ۔’’جی ہاں‘ قصبے والوں میں کچھ اسی قسم کی افواہ ہے‘‘۔
’’بھئی یہ بات تو کسی طرح میرے حلق سے نہیں اُتر تی ۔ سنا میں نے بھی ہے۔۔۔۔۔‘‘جج صاحب بو لے ۔’’اُس کی موت کے بعد میں قصبے کے کچھ معزّز لوگوں سے۔۔۔۔۔بھی ملا تھا۔ انہوں نے بھی یہی خیال ظاہر کیا تھاکہ و ہ کوئی پہنچا ہو ا آدمی تھا لیکن میں نہیں سمجھتا۔اُس کی شخصیت پُر اسرار ضرور تھی مگر ان معنوں میں نہیں‘‘۔
’’اُس کے نوکر کے متعلق آپ کا خیال کیا ہے جو قبر کی مجاوری کرتا ہے‘‘۔فیاض نے پو چھا۔
’’وہ بھی ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ‘‘۔عمران تڑ سے بولا۔اورجج صاحب اُسےپھر گھورنے لگے ۔ لیکن اس بار بھی انھوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں پو چھا۔
’’کیا وصیت نامے میں یہ بات ظاہر کر دی گئی ہے کہ قبر کا مجا ور عمارت کے بیرو نی کمرے پر قا بض رہے گا‘‘۔فیاض نے جج صاحب سے پو چھا۔
’’جی ہاں ۔ قطعی‘‘۔جج صاحب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔بہتر ہو گا اگر ہم دو سری با تیں کریں ۔ اُس عمارت سے میرا بس اتنا ہی تعلق ہےکہ میں قانو نی طور پر اس کا ما لک ہوں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ میرے گھر کے کسی فرد نے آج تک اس میں قیا م نہیں کیا‘‘۔
’’کوئی کبھی اُدھر گیا بھی نہ ہو گا‘‘۔فیاض نے کہا۔
’’بھئی کیوں نہیں ۔شروع میں توسبھی کو اُس کے دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک حیرت انگیز طریقے پر ہماری ملکیت میں آئی تھی‘‘۔
’’ایاز صاحب کے جنا زے پر نور کی با رش ہو ئی تھی‘‘۔ عمران نے پھر ٹکڑا لگایا۔
’’مجھے پتہ نہیں ‘‘۔صاحب بیزاری سے بو لے۔’’میں اُس وقت وہاں پہنچا تھا جب وہ دفن کیا جا چکا تھا‘‘۔