’’اُوہ ! یہ تو مجھے یا د نہیں رہا ۔ میرا خیال ہے شا ئد میں تم سے چا ول کے بھا ؤ پو چھنے آیا تھا ۔مگر تم کہوگے کہ میں کوئی نا چنے والی تو ہو ں نہیں کہ بھاؤ بتاؤں ۔ ویسے تمہیں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ …ان لاشوں کے سلسلے میں کہیں محبوبۂ یک چشم کا قدم ضرور ہے۔ میں کوئی غلط لفظ تو نہیں بولا۔ہاں‘‘۔
’’اُس کا قدم کس طرح ‘‘۔ فیاض یک بیک چو نک پڑا۔
’’انسا ئیکلو پیڈ یا میں یہی لکھا ہے‘‘۔عمران سر ہلا کر بولا۔ ’’بس یہ معلوم کروکہ اُس نے چودہ کی رات کہاں بسر کی‘‘۔
’’کیاتم سنجیدہ ہو؟‘‘
’’اُف فوہ!بے وقوف آدمی ہمیشہ سنجیدہ ر ہتے ہیں ‘‘۔
’’ا چھا میں معلوم کرو ں گا‘‘۔
’’خدا تمہاری مادہ کو سلامت ر کھے ۔ دوسری با ت یہ کہ مجھے جج صاحب کے دوست ایازؔکے مکمل حا لات درکا ر ہیں وہ کون تھا۔ کہاں پیدا ہو ا تھا ۔کس خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ا س کےدو سرے ا عزہ کہا ں ر ہتے ہیں ۔ سب مرگئے یا ابھی کچھ زندہ ہیں ‘‘۔
’’تو ایسا کرو! آج شام کی چا ئے میرے گھر پر پیو‘‘۔فیاض بولا۔
’’اوراس وقت کی چائے ‘‘۔ عمران نے بڑے بھولے پن سے پو چھا۔
فیاض نے ہنس کرو یڑکو چا ئے کا آرڈردیا۔عمران اُلوؤں کی طرح دیدے پھر ا رہا تھا ۔وہ کچھ دیر بعدبولا۔
’’کیا تم مجھے جج صا حب سے ملاؤ گے‘‘۔
’’میں تمہاری موجود گی میں ہی اُن سے اس کے متعلق گفتگوکروں گا‘‘۔
چائے آگئی تھی۔ فیاض کچھ سوچ رہا تھا ۔ کبھی کبھی وہ عمران کی طرف بھی دیکھ لیتا جو اپنے سا منے والی دیوار پر لگےہوئے آئینے میں دیکھ دیکھ کر منہ بنا رہا تھا ۔فیاض نے چا ئے بنا کر پیا لی اُس کے آگے کھسکادی۔
’’یار فیاض !وہ شہید مرد کی قبر والا مجاور بڑا گر یٹ آدمی معلو م ہوتا ہے‘‘۔ عمران بولا۔
’’کیوں ؟‘‘
’’اُس نےایک بڑی گر یٹ بات کہی‘‘۔
’’کیا‘‘۔
’’یہی کہ پولیس والے گد ھے ہیں ‘‘۔
’’یہ کیوں کہا تھااُس نے ؟‘‘فیاض چونک کر بولا۔
’’پتہ نہیں ‘لیکن اس نے بات بڑے پتے کی کہی تھی‘‘۔
’’تم خوامخواہ گالیاں د ینے پر تلے ہو ئے ہو‘‘۔
’’نہیں پیارے !اچھا تم یہ بتاؤوہاں قبر کس نے بنا ئی تھی اور اُس ایک کمرے کے پلاسڑ کے متعلق تمہا راکیا خیا ل ہے‘‘۔
’’میں فضولیات میں سر نہیں کھپاتا‘‘۔فیاض چڑھ کر بولا۔’’اس معاملے سے اُن کا کیا تعلق؟‘‘
’’تب تو کسی اجنبی کی لا ش کا وہا ں پایا جانابھی کوئی ا ہمیت نہیں رکھتا‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’آخر تم کہنا کیا چا ہتے ہو ؟‘‘فیا ض جھنجھلا کر بولا۔
’’یہی کہ نیک بچے صبح اُٹھ کراپنے بڑوں کو سلام کرتے ہیں۔ پھر منہ ہا تھ دھوکر نا شتہ کر تے ہیں ۔پھر اسکول چلے جاتے ہیں اور اسکول میں کتاب کھول کر الف سے اُلّو۔ب سے بندر۔پے سے پتنگ…‘‘
’’عمران خدا کےلیے ‘‘۔ فیاض ہا تھ اٹھا کر بولا۔
’’اور خدا کے لیے ‘‘۔فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا۔
’’اور خدا کو ہر وقت یا درکھتےہیں ‘‘۔
’’بکے جاؤ‘‘۔
’’چلو خا موش ہو گیا ۔ ایک خا مو شی ہزا ر ٹلا ئیں با لتی ہے…ہائیں کیا ٹلائیں …لا حول ولا قو ۃ…میں نے ابھی کیا کہا تھا ؟‘‘
’’اپنا سر‘‘۔
’’ہاں شکریہ ۔میرا سر بڑا مضبوط ہے۔ایک بارتو اتنا مضبوط ہو گیا تھا کہ میں اسے بیگن کا بھر تہ کہا کرتا تھا‘‘۔
’’چائے ختم کرکے د فع ہو جاؤ ‘‘۔فیاض بولا۔’’مجھے ابھی بہت کام ہے شام کو گھر ضرور آنا‘‘۔
اُسی شام کو عمران اور فیا ض جج صاحب کے ڈرا ئنگ روم میں بیٹھے اُن کا انتظار کررہےتھے۔اُن کی لڑکی بھی موجود تھی اوراُ س نے اُس وقت بھی سیا ہ رنگ کی عینک لگارکھی تھی۔عمران باربار اس کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھر رہا تھا۔فیاض کبھی کبھی را بعہ کی نظر بچا کر اُسے گھورنے لگتا۔
’’تھوڑی دیر بعد جج صاحب آگئے اوررا بعہ اُٹھ کر چلی گئی۔
’’بڑی تکلیف ہوئی آپ کو ‘‘۔ فیاض بولا۔
’’کوئی بات نہیں …فرمایئے!‘‘
’’بات یہ ہےکہ میں ایا زؔ کے متعلق مز ید معلومات چاہتاہوں‘‘۔
’’میرا خیال ہے کہ میں آپ کو سب کچھ بتا چکا ہوں‘‘۔
’’میں اُس کے خا ندانی حا لات معلوم کرنا چا ہتا ہوں تاکہ اس کے اعزہ سے مل سکوں‘‘۔
’’افسوس کہ میں اس کی بابت کچھ نہ بتا سکوں گا‘‘۔جج صاحب نے کہا۔’’بات آپ کو عجیب معلوم ہو گی لیکن یہ حقیقت ہےکہ میں اُس کے متعلق کچھ بھی نہیں جا نتا حالانکہ ہم گہرے دوست تھے‘‘۔
’’کیا آپ یہ بھی نہ بتا سکیں گے کہ وہ کہا ں کا با شندہ تھا‘‘۔
’’افسوس ‘میں یہ بھی نہیں جا نتا‘‘۔
’’بڑی عجیب بات ہے !اچھا پہلی ملاقات کہا ہو ئی تھی؟‘‘
’’انگلینڈمیں‘‘۔
’’فیاض بے اختیار چونک پڑا ۔ لیکن عمران بالکل ٹھس بیٹھا رہا۔اُس کی حالت میں ذرّہ برابر بھی کوئی تبدیلی نہ ہو ئی۔