’’ول ڈن ! ول ڈن ‘‘۔ عمران ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا اور پھر مسہری پر ا کڑوں بیٹھ کر اس طرح تالی بجا نے لگا جیسے کسی کھیل کے میدا ن میں بیٹھا ہوا کھلا ڑیوں کو داددےرہا ہو۔
’’یہ کیا بے ہو دگی ہے ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر جھنجھلاکربولی۔
’’اُوہ !ساری!‘‘وہ چونک کر لیڈی جہا نگیر کو متحیرانہ نظروں سے دیکھتا ہو بولا۔’’ہیلو ! لیڈی جہا نگیر۔ فرما یئے ! صبح ہی صبح کیسے تکلیف کی ‘‘۔
’’تمہارادماغ تو نہیں خراب ہو گیا ‘‘۔لیڈی جہا نگیر نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ہو سکتاہے ‘‘۔ عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا اور اپنے نوکروں کے نام لےلے کر ا نھیں پکا رنے لگا۔
لیڈی جہا نگیر اُسے چند لمحے گھو رتی رہی پھر بولی۔
’’براہِ کرم اب تم یہاں سےچلے جاؤ تو بہتر ہےورنہ…‘‘
’’ہائیں …!تم مجھے میرے گھر سے نکا لنےوالی کون ہو‘‘۔عمران اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔
’’یہ تمہارے باپ کا گھر ہے؟‘‘ لیڈی جہا نگیر کی آواز بلند ہوگئی۔
عمران چاروں طرف حیرت سے د یکھنے لگا۔پھر اس طرح اُچھلا جیسے اچانک سر پر کو ئی چیز گری ہو‘‘۔
’’اَرے !میں کہا ہوں۔یہ کمرہ تو میرا نہیں معلوم ہو تا‘‘۔
’’اب جا ؤو رنہ مجھے نو کروں کو بُلا نا پڑےگا‘‘۔
’’نو کروں کو بُلا کر کیا کر وگی ۔ میرے لا ئق کو ئی خدمت ۔ ویسے تم غصے میں بڑی حسین لگتی ہو‘‘۔
’’شٹ اَپ‘‘۔
’’اچھا ‘کچھ نہیں کہوں گا ‘‘۔عمران بسور کر بولا۔ اور پھر مسہری پر بیٹھ گیا ۔