خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

فیاض چل نہیں بلکہ گھسٹ رہا تھا ۔ کسی طرح وہ با ہر نکلے ۔ دروازہ بند کرکے قفل لگایا اور پھر عمران اُسے راستہ بھر یہی سمجھا تا رہا کہ ایسے مو قعے پر پلٹ کر د یکھنا  بخار کو دعو ت دینا ہو تا ہے۔

ایک بج گیا تھا۔فیاض عمران کو اس کی کوٹھی کے قریب   اتا ر کر چلا گیا۔

پا ئیں باغ کا  پھا ٹک بند ہو چکا تھا۔ عمران پھاٹک ہلانے لگا۔ اُنگھتے ہوئے چو کیدار نے ہا نک لگائی۔ٍ

’’پیارے چو کیدار …میں ہوں ےتمہارا خا دم ۔ علی عمران ایم۔ سی پی ۔ ایچ ۔ڈی لندن‘‘۔

’’کون چھوٹے سرکار ‘‘۔چوکیدار پھا ٹک کے قریب آکر بولا ۔’’حضور مشکل ہے‘‘۔

’’دنیاکا ہربڑا آدمی کہہ گیا ہے کہ وہ مشکل ہی نہیں جوآسان نہ ہو جا ئے‘‘۔

’’بڑے سرکار کا حکم ہے کہ پھا ٹک نہ کھولا جا ئے ۔اب بتا یئے‘‘۔

’’بڑے سرکار تک کنفیو شِس کا پیغام پہنچادو‘‘۔

’’جی سرکار ‘‘۔ چوکیدار بوکھلا کربولا۔

’’اُن سے کہہ دو ہ کنفیوشِس نے کہا ہے  کہ تاریک رات میں بھٹکنے والے ایمانداروں کے لیے اپنے دروازے کھول دو‘‘۔

’’مگربڑے سرکار نے کہا ہے…‘‘

’’ہا …بڑے سرکار ۔ انھیں چین میں پیدا ہو نا تھا ۔ خیر تم ان تک کنفیو شِس کا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا‘‘۔

’’میں کیا بتاؤں‘‘۔ چوکیدار کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا۔’’اب آپ کہاں جا ئیں گے؟‘‘

’’فقیر یہ سہانی رات کسی قبر ستان میں بسر کرے گا‘‘۔

’’میں آپ کے لیے کیا کرو ں‘‘۔

’’دعا ئے مغفرت …اچھا ٹاٹا‘‘۔عمران چل پڑا۔

اور پھر آدھ گھنٹے کے بعد وہ ٹپ ٹاپ نا ئٹ کلب میں داخل ہورہاتھا۔لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہیں محکمہ سرا غرسانی کے ایک ڈپٹی ڈائر کڑ سے مڈبھیڑ ہوگئی جو اس کے باپ کا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا۔

’’اُوہو !صاحبزادے تو اب ادھر بھی دکھا ئی دینے لگے ہو‘‘۔

’’جی ہاں ۔ اکثر فلش کھیلنے کےلیے چلا آتا ہو ں ‘‘۔عمران نے سر جھکا کر بڑی سعادت مندی سے کہا ۔

’’فلش !تو کیااب فلش بھی…‘‘

’’جی ہاں ۔ کبھی کبھی نشے میں دل چا ہتے ہے‘‘۔

’’اُوہ …تو شراب  بھی پینے لگے ہو‘‘۔

’’وہ کیا عرض کروں ۔ قسم لے لیجیے جوکبھی  تنہاپی ہو ۔ اکثر شرابی طوا ئفیں بھی مل جا تی ہیں جو پلائے بغیر ما نتی ہی نہیں ‘‘۔

’’لاحول وولا قوۃ ۔ توتم آج کل رحمان صاحب کا نام اچھال رہے ہو ‘‘۔

’’اب آپ ہی  فرمایئے ‘‘۔ عمرا ن مایوسی سے بولا۔’’جب کوئی شریف لڑکی نہ ملے تو کیا کیا جائے۔ ویسے قسم لے لیجیے جب کوئی مل جاتی ہے تو میں طوائفوں پر لعنت بھیج کر خدا کا شکر ادا کر تا ہوں ‘‘۔

وہ تھوڑی دیر تک عمران کو گھورتا رہا پھر بولا۔

’’شائد رحمان صاحب کو اس کی اطلاع نہیں …خیر…‘‘

’’اگر اُن سے ملاقات ہوتو کنفیوشس کا یہ قول دُہرادیجیے گا کہ جب  کسی ایماندار کو اپنی ہی چھت کے نیچے پناہ نہیں ملتی تو وہ تاریک گلیوں میں بھونکنے والے کتّوں سے سازباز کر لیتاہے‘‘۔

ڈپٹی ڈا ئر کڑ اُسےگھورتا ہو ا چلا گیا ۔

عمران نے سیٹی بجا نے والے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر ہال کا جا ئز ہ لیا ۔اس کی نظریں ایک میز پر رُک گئیں جہاں ایک خو بصورت عورت اپنے سا منےپورٹ کی بوتل رکھے  سگر یٹ پی رہی تھی ۔ گلاس آدھے سے زیادہ خا لی تھا۔

عمران اُس کے قریب پہنچ کر رُک گیا۔

’’کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں …لیڈی جہا  نگیر ‘‘۔ وہ قدر ے جھک کر بولا۔

’’اوہ تم!‘‘لیڈی جہا نگیر اپنی داہنی بھوں اٹھا کر بو لی ۔’’نہیں …ہر گز نہیں‘‘۔

’’کوئی بات نہیں ‘‘۔ عمران معصومیت سے مسکراکر بولا ۔ ’’کنفیوشس نے کہا تھا‘‘۔

’’مجھے کنفیوشِس سے کوئی د   لچسپی  نہیں ‘‘۔وہ جھنجھلا کر بولی۔

’’تو ڈی ۔ ایچ لار نس ہی کا ایک جملہ   سن لیجیے ‘‘۔

’’میں کچھ نہیں سننا چا ہتی ۔ تم یہاں سے ہٹ جاؤ ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر گلاس اُٹھا تی ہوئی بولی۔

’’اُوہ ۔ اس کا تو خیال کیجیے کہ آپ میری منگیتر بھی رہ چکی ہیں ‘‘۔

’’شٹ اَپ‘‘۔

’’آپ کی مر ضی ۔ میں تو آپ کو صرف یہ بتا نا چا ہتا تھا کہ آج صبح ہی سے موسم بہت خو شگوار تھا‘‘۔

وہ مسکرا پڑی۔

’’بیٹھ جاؤ ‘‘۔اُس نے کہا اور ایک ہی سا نس میں گلاس خا لی  کر گئی۔

وہ تھوڑی دیر اپنی نشیلی آنکھیں عمران کے چہرے پر جما ئے رہی پھر سگر یٹ کا ایک طویل کش لے کر آگے جھکتی ہوئی آہستہ سے بولی ۔’’میں اب بھی تمہا ری ہوں‘‘۔

’’مگر …سر جہا نگیر ‘‘۔عمران ما یو سی سے بو لا ۔

’’دفن کرو اُسے ‘‘۔

’’ہا ئیں …تو کیا مر گئے‘‘۔عمران گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔

لیڈی جہا نگیر ہنس پڑی۔

’’تمہاری حما قتیں بڑی پیاری ہو تی ہیں ‘‘۔ وہ اپنی با ئیں آنکھ دبا کر بو لی اور عمران نے شرما کر سر جھکا لیا۔

’’تم آج کل کیا کر رہے ہو ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے تھوڑی  دیر بعد پو چھا ۔

’’صبر !‘‘عمران نے طویل سا نس لے کر کہا۔

’’تم زندگی کے کسی حصے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو سکتے ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر  مسکرا کر بولی۔

’’اُوہ  …آپ بھی یہی سمجھتی ہیں ‘‘۔عمران کی آواز حد درجہ درد نا ک ہو  گئی ۔

’’آخر مجھ میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے تھے کہ تم نےشادی سے انکار  کر دیا تھا‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے کہا ۔

’’میں نے کب انکار کیا تھا‘‘۔ عمران مسمسی صورت بنا کر بولا ۔’’میں نے توآپ کی وا لد صاحب کو صرف دو تین اشعار سنائے  تھے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ انھیں شعر و شا عری سے د لچسپی نہیں ورنہ میں نثر ہی میں گفتگوکرتا‘‘۔

’’والد صاحب کی رائے ہے کہ تم پر لے سرے کے احمق اور  بد تمیز ہو‘‘۔لیڈی جہا نگیر نے کہا ۔