خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’مگر مری جان تو یہ  دیکھو   ’نقش فریاد ی ہے کس کی شوخی تحریر کا ‘لاش غائب  کرنے والے نے ابھی خون کے تازہ دھبّوں کا کوئی انتظام نہیں کیا۔

قاتل ہماری لاش کو تشہیر دے-

ضرور!

تاکہ آئندہ کوئی نہ کسی سے وفاکرے-

فیاض جُھک کر فرش پر پھیلے ہوئے  خون کو دیکھنے ۔’’لیکن لاش کیا ہوئی‘‘۔وہ گھبرائے ہوئے لہجہ میں بولا۔

’’فرشتے اٹھا لے گئے ۔ مرنے والا بہشتی تھا ۔ مگر  لاحول ولا ۔ بہشتی سقے کو بھی کہتے ہیں …کیا کہیں گے …سر چکرا رہا ہے…دَور ہ پڑجا ئے گا‘‘۔

’’جنّتی کہیں گے ۔ عمران تم سے خدا سمجھے‘‘۔

’’جیؤ۔ ہاں تو مرنے والا جنتی تھا ۔ اور کیاکہہ رہا تھا میں…‘‘

’’تم  یہیں رُکے کیوں نہیں رہے تھے ‘‘۔فیاض بگڑ کر بولا ۔’’مجھے آوازدے لی ہوتی‘‘۔

’’سنو یار !بندر یا توکیا میں نے آج تک کسی مکھی کا بھی بوسہ نہیں لیا ۔۔۔۔۔‘‘عمران مایوسی سے بولا۔

’’کیا معا ملہ ہے ‘تم کوکئی بار بند ریا کا حوالہ دے چکے ہو‘‘۔

’’جو کچھ  ابھی تک بتا یا ہے بالکل صحیح تھا۔ اس آدمی نے گدھے پر سے بندریا اتاری ۔ اُسے کمرے میں لے گیا ۔ پھر بندریا دوبارہ چیخی اوروہ آدمی ایک بار …اُس کے بعد سنا ٹا چھا گیا ۔ پھر لاش دکھا ئی دی۔گدھا اور بند ریا غائب تھے‘‘۔

’’ سچ کہہ رہے ہو ‘‘۔ فیاض بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

’’مجھے جھوٹا سمجھنے والےپر قہر خداوند ی کیوں  نہیں ٹوٹتا‘‘۔

فیاض تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھرتھوک نگل کربولا۔

’’تت…تو…پھر صبح ہی پر رکھو‘‘۔

عمران کی نظریں پھر قبر کی طرف اٹھ گئیں ۔ قبر کا تعویذ اٹھاہوا تھااور وہی خوفناک آنکھیں اندھیرے میں گھوررہی تھیں ۔ عمران نے ٹارچ بجھادی اور فیاض کو دیوار کی اُوٹ میں ڈھکیل لے گیا۔نہ جا نے کیوں وہ چا ہتا تھا کہ فیاض کی نظر اس پر نہ پڑے۔

’’کک …کیا ‘‘فیاض کا نپ کر بولا۔

’’بندریا ‘‘۔ عمران نے کہا ۔ وہ کچھ اور ابھی کہنے  جا رہا تھا کہ وہی  چیخ ایک بار پھر سنا ٹے میں لہر ا گئی۔

’’ارَے …باپ‘‘۔ فیاض کسی خو فزدہ بچے کی طرح بولا۔

’’آنکھیں بند کرلو‘‘۔عمران نے سنجیدگی سے کہا ۔’’ایسی چیزوں پر نظرپڑنے سے ہارٹ فیل بھی ہوجا یا کرتا ہے۔ریو ا لو ر لا ئے ہو‘‘۔

’’نہیں ۔ نہیں ۔ تم بتایا کب تھا‘‘۔

’’خیر کوئی بات نہیں ۔ اچھا ٹھہرو ‘‘۔ عمران آہستہ آہستہ دَروازے کی طرف بڑھتا  ہوا بولا۔

قبر کا تعویذ برابر ہو چکا تھا اور سنا ٹا  پہلے سے بھی کچھ زیادہ گہرا معلوم ہو نے لگاتھا۔

’’تیار ہو جا ؤ‘‘۔ عمران لوٹ کر بولا۔

’’کِک …کس لیے‘‘۔

’’بندریا گدھے پر سوار ہے‘‘۔

’’پھر ‘‘۔فیاض اپنے ہو نٹوں پر زبان پھیر تا ہو ا بولا۔

’’تم بندریا کو گو د میں اُٹھا لینا اور گدھے پر سوار ہو جا ؤں گا‘‘۔

’’یار …ڈراؤمت…یہ بھوت خا نہ ہے‘‘۔

’’اچھا تو تم ہی گدھے پر سوار ہو جا نا ۔ ایک ہی بات ہے‘‘۔

فیاض کے دِل کی دھڑکن وہ صاف سن ر ہا تھا۔

’’چلو ! نکل چلو‘‘۔ چپ چاپ  عمران اس کا ہا تھ پکڑ کر گھسیٹتا ہو ا بولا۔

’’مگر…؟‘‘

’’چلو ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘۔ عمران  گھگھیا ئی ہوئی آواز میں بولا ۔

’’مگر وہ…‘‘

’’ارے کھسکوبھی‘‘۔ عمران نے اسے دَروازے کی  طرف دھکّا دیا۔