خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

عمران زمین پر لیٹ کر سینے کےبل رینگتا ہوا صدر دروازےکی طرف بڑھا ۔کبھی کبھی وہ پلٹ کر قبر کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا ۔لیکن پھر تعویذ نہیں اُٹھا ۔

صدر دروازہ با ہر سے بند ہو چکا تھا ۔ عمران اچھی طرح اطمینان کر لینے کے بعد پھر لو ٹ پڑا۔

لاش والے کمرے کا دروازہ کھلا ہواتھا۔ لیکن اب وہاں اندھیرے کی حکومت تھی ۔عمران نے آہستہ آہستہ دروازہ بند کرکے ٹارچ نکالی لیکن روشنی ہوتے ہی حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’انا لله و انا الیه را جعون‘‘۔ وہ آہستہ سے بڑبڑا ۔’’خدا تمہا ری بھی مغفرت کرے‘‘۔

ٹھیک اسی جگہ جہاں وہ اس سے قبل بھی ایک لاش دیکھ چکاتھا‘دوسری پڑی ہوئی دکھائی دی۔اس کی پشت پر بھی تین زخم تھے جن سے خون بہہ بہہ کر فرش پر پھیل رہا تھا۔عمران نے جھک کراُسے دیکھا ۔یہ ایک خوش وضع اور کافی خو بصورت جوان تھا اور لبا س سے کسی اونچی سو سائٹی کافر د معلوم ہوتا تھا۔

’’آج اُن کی کل اپنی با ری ہے‘‘۔ عمران درویشانہ انداز میں بڑبڑاتا ہوا سیدھا ہو گیا ۔ اس کے ہاتھ میں کا غذکا ایک ٹکڑا تھا جواُس نے مرنے والے کی مٹھی سے بد قت تمام نکالا تھا۔

وہ چند لمحے اُسے ٹارچ کی روشنی میں دیکھتا رہا ۔  پھر معنی خیز انداز میں سر ہلا کر کوٹ کر اندرونی جیب میں رکھ لیا۔

کمرے کے بقیہ حصوں کی حالت بعینہ وہی تھی جو اُس نے پچھلی مرتبہ دیکھی تھی ۔ کوئی خاص فرق نظر نہیں آرہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد وہ پچھلی دیوار سے نیچے اتررہاتھا۔آخری روشندان پر پیر رکھ کر اُس نے چھلانگ لگا دی۔

’’تمہاری یہ خصوصیت بھی آج ہی معلوم ہوئی‘‘۔فیاض آہستہ سے بولا ۔وہ حیرت سے عمران کی طرف  دیکھ رہا تھا۔

’’کیا اندر کسی بندریا  سے ملاقات ہوگئی تھی ‘‘۔ فیاض نے مسکراتے ہوئے پھر کہا ۔

’’آواز پہنچی یہا ں تک ‘‘۔ عمران نے پوچھا۔

’’ہاں !لیکن میں نے ان اطراف میں بندر نہیں دیکھے ‘‘۔

’’اس کے علاوہ کوئی دوسری آواز؟‘‘

’’ہاں !شائد تم  ڈر کر چیخے تھے ‘‘۔ فیاض بولا۔

’’لاش اِسی وقت چا ہیے یا صبح ؟‘‘عمران پو چھا ۔

’’لاش !‘‘فیاض اُچھل پڑا ۔ ’’کیا بکتے ہو !کیسی لاش !‘‘

’’کسی شاعر نے دو غز لہ  عرض کردیا ہے‘‘۔

’’اے دنیا کے  عقلمند ترین احمق ‘صاف صاف کہو ‘‘۔ فیاض جھنجھلا  کر بولا ۔

’’ایک دوسری لاش…تین زخم ۔ زخموں کا فاصلہ  پا نچ انچ ۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ان کی گہرائی بھی یکساں نکلے گی‘‘۔

’’یاربے وقوف مت بناؤ ‘‘۔ فیاض عا جزی سے بولا۔

’’جج صا حب والی کنجی موجو د ہے ۔عقلمند بن جاؤ ‘‘۔ عمران نے خشک لہجے میں کہا ۔

’’لیکن یہ ہو ا کس طرح؟‘‘

اسی طرح جیسے شعر ہوتے ہیں لیکن یہ شعر مجھے  بھرتی کا معلوم ہوتا ہے ۔ جیسے میر کا یہ شعر

میر کے دین ومذہب کو کیا پو چھتے ہو اُن نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا!

۔۔۔۔۔بھلا بتاؤ دیر میں کیوں بیٹھا‘ جلدی کیوں نہیں بیٹھ گیا‘‘۔

’’دیر نہیں دَیر ہے …یعنی بت خانہ‘‘۔فیاض نے کہا  پھر ہڑبڑا کر بولا۔۔۔۔۔’’لاحول ولاقوۃ۔میں بھی اسی لغویت میں پڑگیا ۔ وہ لاش عمارت کےکس حصے میں ہے‘‘۔

’’اُسی کمرے میں اور ٹھیک اسی جگہ جہاں پہلی لاش ملی تھی‘‘۔

’’لیکن وہ آوازیں کیسی تھیں ؟‘‘فیاض نے پوچھا۔

’’وہ نہ پوچھو تو بہتر ہے۔میں نے اتنا مضحکہ خیز منظر آج تک نہیں دیکھا‘‘۔

’’یعنی‘‘۔

’’پہلے ایک گدھا دکھائی دیا جس پر ایک بندریا سوار تھی پھر ایک دوسرا سایہ نظر آیا جو یقیناً کسی آدمی کا تھا۔ اندھیرے میں بھی گدھے اور آدمی میں فرق کیا جا سکتا ہے کیوں تمہارا کیا خیال ہے‘‘۔

’’مجھے افسوس ہے کہ تم ہر وقت غیر سنجیدہ رہتے ہو‘‘۔

’’یار فیاض!سچ کہنا! اگر تم ایک آدمی کو کسی بندریا کا منہ چومتے دیکھو تو تمہیں غصہ آئے گا یا ہنسی‘‘۔

’’فضول وقت بر باد کر رہے ہو  تم‘‘۔

’’اچھا چلو ‘‘۔ عمران اس کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔

وہ دونوں صدردروازے کی طرف آئے۔

’’کیوں پر یشان کر رہے ہو ‘‘۔ فیاض نے کہا۔

’’کنجی نکالو ‘‘۔ درواز ہ کھول کر دونوں لاش والے کمرے میں آئے ۔ عمران نے ٹارچ روشن کی لیکن وہ دوسرے ہی لمحےمیں اس طرح سے  سر سہلا رہا تھا جیسے دماغ پر دفتعاًگرمی  چڑھ کر گئی ہو۔

لاش غائب تھی۔

’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘فیاض بھنّا کر پلٹ پڑا۔

’’ہوں ۔ بعض عقلمند شاعر بھرتی کے شعر اپنی غزلوں سے نکال بھی دیا کرتے ہیں ‘‘۔

’’یار عمران میں باز آیا تمہاری مدد سے ؟‘‘