مسالے سے پکائے گئے آم صحت کے لیے کیوں نقصان دہ ہو سکتے ہیں؟

5 اہم نکات

  1. کیلشیم کاربائیڈ کا استعمال آموں اور دیگر پھلوں کو تیزی سے پکانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
  2. کیلشیم کاربائیڈ سے پکائے گئے آم صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
  3. غیر قانونی طور پر پکائے گئے پھل بیچنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔
  4. کیلشیم کاربائیڈ غیر قدرتی طریقے سے پھلوں کو پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
  5. ایسیٹیلین دماغ کو آکسیجن کی فراہمی میں رکاوٹ بنتا ہے اور اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے۔
  6. ایتھیلین ایک محفوظ متبادل ہے جو پھلوں کو قدرتی طور پر پکاتا ہے۔
  7. تاجر ایتھیلین گیس کا استعمال کر سکتے ہیں جو صحت کے لیے محفوظ ہے۔

مسالے سے پکائے گئے آم صحت کے لیے کیوں نقصان دہ ہو سکتے ہیں؟

برصغیر پاکستان اور انڈیا میں موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی بازار مختلف اقسام کے آموں کی خوشبو سے بھر جاتے ہیں۔ آم کے شوقین لوگ اس پھل کا مزہ لینے کے لیے بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔

مارکیٹ میں آموں کی مختلف اقسام دستیاب ہیں جیسے ہاپوس، کیسر، لنگڑا، طوطا پری، دسہری وغیرہ۔ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ غیر قدرتی طریقے سے پکائے گئے آم صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

انڈیا میں فوڈ کی ريگولیٹری اتھارٹی ایف ایس ایس اے آئی نے 2011 میں کیلشیم کاربائیڈ کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن کچھ تاجر آموں کو قبل از وقت پکا کر عوام کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔

کیلشیم کاربائیڈ پھلوں کو تیزی سے پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز (فروخت کی ممانعت) 2011 کے قاعدہ 2.3.5 کے تحت اس کے استعمال پر پابندی ہے۔ اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص کاربائیڈ سے پکے ہوئے پھل فروخت نہیں کر سکتا۔

ایف ایس ایس اے آئی نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے فرٹیلائزر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹس کو خبردار کیا ہے کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

کیلشیم کاربائیڈ سے آم کیوں پکایا جاتا ہے؟

آم کے علاوہ کیلشیم کاربائیڈ کیلے، لیچی وغیرہ کو بھی پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ کیمیکل پھلوں کو تیزی سے تیار کرنے، منافع کمانے اور زیادہ دیر تک ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر، آم کے باغ سے منڈی تک پہنچتے پہنچتے ان کی تازگی کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے آم کو پکنے سے پہلے توڑا جاتا ہے اور کیلشیم کاربائیڈ لگا کر بازار میں بھیجا جاتا ہے۔

بی بی سی نے راجکوٹ گجرات میونسپل کارپوریشن کے محکمہ صحت کے سربراہ جیش وکانی سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ آم پکنے کے بعد دو سے تین دن میں خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ درخت پر قدرتی طور پر پکنے دیا جائے تو یہ فوراً خراب ہو جاتا ہے، اس لیے اسے جلدی توڑا جاتا ہے اور تاجر مطلوبہ مقدار میں پکاتے ہیں۔

فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا نے کھانے کی اشیا کے تاجروں کے لیے سخت ہدایات جاری کی ہیں۔ جمعرات کو اتھارٹی نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے فوڈ کمشنروں سے کہا کہ وہ پھل پکانے میں کیلشیم کاربائیڈ کے غیر قانونی استعمال کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

کیلشیم کاربائیڈ کیا ہے؟

کیلشیم کاربائیڈ جب ہوا میں نمی کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتا ہے تو ایسیٹیلین بناتا ہے جو ایتھیلین کی طرح کام کرتا ہے۔ ایتھیلین ایک قدرتی ہارمون ہے جو پھلوں کو پکنے میں مدد دیتا ہے۔ کیلشیم کاربائیڈ ایسیٹیلین گیس خارج کرتا ہے، جس میں آرسینک اور فاسفورس جیسے خطرناک کیمیکلز ہوتے ہیں۔ ان کیمیکلز کو مسالہ بھی کہا جاتا ہے۔

کیلشیم کاربائیڈ کاربن کی ٹھوس شکل ہے۔ جب اسے پھلوں پر چھڑکا جاتا ہے تو یہ گھل کر پھلوں کو گہرا رنگ دیتا ہے۔ یہ ٹھوس شکل میں پیکٹوں میں آتا ہے اور پھلوں پر چھڑکنے سے اس کی تھوڑی مقدار ہی کافی ہوتی ہے۔ لیکن کچھ پھلوں میں زیادہ مقدار میں دیا جاتا ہے۔

کیلشیم کاربائیڈ صحت کو کیسے متاثر کرتا ہے؟

حالیہ تحقیق کے مطابق، کیلشیم کاربائیڈ سے پیدا ہونے والا ایسیٹیلین دماغ کو آکسیجن کی فراہمی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ ہمارے اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور معدے میں داخل ہوتے ہی قے اور اسہال کا سبب بن سکتا ہے، حتیٰ کہ مریض کوما میں بھی جا سکتا ہے۔ طویل المدتی اثرات میں یہ موڈ اور دماغ کو متاثر کر سکتا ہے۔

کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آم کی شناخت کیسے کی جائے؟

کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آموں پر سفید دھبے آ جاتے ہیں۔ یہ آم غیر مساوی طور پر پکتے ہیں، جہاں کیمیکل کے رابطے میں آتا ہے وہ حصہ پیلا ہوتا ہے اور دوسرا سبز رہتا ہے۔ جبکہ ایتھیلین سے پکے آم ایک ہی رنگ کے ہوتے ہیں۔

کیلشیم کاربائیڈ کا متبادل

ایتھیلین ایک محفوظ متبادل ہے جو پھلوں کو قدرتی طور پر پکاتا ہے۔ یہ کیمیکل پھلوں کے پکنے کے عمل کو منظم کرتا ہے اور 100 پی پی ایم تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایتھیلین قدرتی ہارمون ہونے کی وجہ سے صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔

محفوظ طریقے سے آم کیسے پکائیں؟

سنٹرل پیسٹی سائیڈ بورڈ اور رجسٹریشن کمیٹی نے ایتھیفون نامی کیمکل کے 39 فیصد استعمال کی منظوری دی ہے۔ تاجر ایتھیلین گیس کا استعمال کر سکتے ہیں جو سلنڈروں میں آتی ہے اور قدرتی طور پر نکلتی ہے۔ اس سے صارفین کی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ لیکن ایتھیلین کے کسی بھی ذریعے کو پھلوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔

کیلشیم کاربائیڈ کے خطرات سے کیسے بچیں؟

1. پھلوں کو دھونا

ماہرین کا کہنا ہے کہ آم کھانے سے پہلے اچھی طرح دھونا چاہیے اور اس کا چھلکا نہیں کھانا چاہیے۔ وکانی کے مطابق، پھلوں پر اوپر سے کاربائیڈ چھڑکا جاتا ہے، اس لیے سیاہ حصے کو نہیں کھانا چاہیے۔

2. براہ راست کسان سے خریداری

ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ پھل براہ راست کسان سے خریدیں اور انھیں گھر پر قدرتی طور پر پکنے دیں۔ اس سے کیمیائی مادوں کے استعمال کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

3. انڈیا کی آم کی پیداوار

انڈیا آم کی پیداوار میں سرفہرست ملک ہے۔ ملک میں تقریباً 2400 ہزار ایکڑ پر آم کے باغات ہیں اور 21.79 ملین ٹن پیداوار ہوتی ہے۔ انڈیا میں آم کی تقریباً 1000 اقسام ہیں، اور آندھرا پردیش، اتر پردیش، کرناٹک، بہار، گجرات اور تلنگانہ بڑی پیداواری ریاستیں ہیں۔

Related Content

اگر رات میں اچھی نیند نہیں آتی تو یہ طریقے اپنالیں

فلو وائرل بیماری

صحت کی اہمیت: 10 آسان صحت کے راز

Leave a Comment