حالیہ دنوں میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) نے اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین میں فوری طور پر ملٹری آپریشن بند کرے۔ آئی سی جے نے فلسطینی بارڈرز کو کھولنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں تاکہ امدادی کارروائیاں شروع ہو سکیں اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو وہاں جانے کی اجازت دی جائے تاکہ جنگی جرائم کے شواہد محفوظ رہ سکیں۔
اس سال تیسری مرتبہ آئی سی جے نے ایسے احکامات جاری کیے ہیں، مگر ہر مرتبہ اسرائیل نے انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔
آئی سی جے کے علاوہ، انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) بھی اسرائیلی وزیراعظم، وزیر دفاع، اور حماس کے تین لیڈروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی توقع کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں آئی سی سی میں باقاعدہ درخواست جمع کرائی جا چکی ہے۔ تاہم، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ وہ آئی سی سی کے کسی ایسے اقدام کو قبول نہیں کریں گے جو اسرائیل کے سیلف ڈیفنس کے حق پر اثر انداز ہو۔
دنیا بھر سے اسرائیل پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ فرانس جیسا اسرائیل کا اتحادی ملک بھی اب دوری اختیار کر رہا ہے، جبکہ جرمنی نے بھی اس معاملے پر بیانات دینا شروع کر دیے ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں عوام کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے، خاص طور پر امریکی یونیورسٹیوں کے طلبا کی احتجاجی مہم نے امریکی انتظامیہ کو دباؤ میں ڈال دیا ہے۔
سوال یہ ہے کیا آئی سی جے، آئی سی سی، یورپی ممالک اور امریکی و یورپی عوام کے احتجاج سے اسرائیل اور امریکا دباؤ میں آ سکتے ہیں کہ وہ کسی 2 ریاستی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا درجہ سے سکیں؟
آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ آئی سی جے، آئی سی سی، یورپی ممالک اور امریکی و یورپی عوام کے احتجاج سے اسرائیل اور امریکا پر دباؤ ڈالنا کہ وہ کسی دو ریاستی فارمولے پر عمل کریں اور فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دیں-
فی الحال ممکن نہیں ہے۔ ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام تو بہت دور کی بات ہے، اس وقت تو فلسطین میں جنگ بندی کرانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ تمام بین الاقوامی فیصلوں اور دباؤ کے باوجود، اسرائیلی فورسز فلسطینی علاقوں میں فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس وقت دنیا کے سامنے سب سے اہم مسئلہ فلسطین میں جنگ بندی ہے۔ دو ہی ممالک ہیں جو فلسطین میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں روک سکتے ہیں: امریکا اور اسرائیل۔
امریکا میں اس سال الیکشن ہیں، اور الیکشن کے سال میں نہ امریکی انتظامیہ اور نہ ہی ریپبلکن پارٹی اسرائیل پر ایسا دباؤ ڈال سکتی ہے کہ جس سے یہودی لابی ناراض ہو۔ یعنی انتخابات کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
دوسرا اہم ملک اسرائیل ہے جو خود فوجی کارروائیاں روک سکتا ہے۔ مگر اسرائیلی حکومت جنگ بندی نہیں چاہتی، بلکہ وہ پوری فلسطینی قوم کو حماس کا ساتھی گردان کر ان کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
اسرائیلی عوام بھی زیادہ تر حماس کے حملوں کے خلاف ہیں اور زیادہ تر اسرائیلی، فلسطینیوں کو حماس کے نام پر سخت جواب دینے کے حمایتی ہیں۔
نیتن یاہو پر اگر کوئی دباؤ ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کروا سکے ہیں۔ ان کے لیے سب سے اہم سوال یہی ہے کہ وہ اپنی عوام کو ان یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے کیسے مطمئن کریں۔
فلسطین میں جنگ بندی کے لیے شاید موجودہ انتخابی مہم تک امریکی سیاسی جماعتیں کچھ نہ کہیں۔
لہذا، امریکی اور اسرائیلی عوام جو جنگ کے مخالف ہیں، ان کو اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ جنگ بندی پر عمل کریں۔ جب تک امریکا کی مرضی شامل نہ ہو، کسی بین الاقوامی عدالت یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بے معنی رہیں گی۔
اگر دنیا واقعی سمجھتی ہے کہ فلسطین میں جنگی جرائم ہو رہے ہیں اور فوری جنگ بندی کرانی ضروری ہے، تو اسے لگاتار اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اس کا فوری طور پر کوئی فائدہ نہ ہو، مگر مستقبل میں یہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ جنگ کے بعد کے حالات میں اسرائیل سفارتی تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔
فی الحال ایک آزاد فلسطینی ریاست کا خواب تعبیر سے بہت دور ہے، مگر جنگ بندی بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.