اہم نکات
- ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت “داستان عزم” ہر پاکستانی کے لیے پڑھنے لائق ہے، خصوصاً نوجوان نسل کے لیے۔
- ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر ڈاکٹر خان نے پاکستان میں رہ کر ایٹمی پروگرام شروع کیا۔
- جنرل ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے لیے بھرپور تعاون کیا اور امریکہ کے دباؤ کا مقابلہ کیا۔
- ڈاکٹر خان کی محنت اور پاکستان سے لازوال عشق نے پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی اور ساتویں ایٹمی طاقت بنایا۔
- ڈاکٹر خان کی خدمات اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور ان کا شکریہ ادا کیا جاتا رہے گا۔
یہ ایسی کتاب ہے کہ ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے اور خاص طور پر نوجوان نسل کو تو لازماً پڑھنی چاہیے-
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت داستان-
ڈاکٹر صاحب کی کتاب 1975ء سے شروع ہوتی ہے، جب وہ پاکستان آئے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے ملاقات کی تھی۔
بھٹو صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ منیر احمد خان اور ان کی ٹیم نے ایٹمی پروگرام میں ایک سال میں کتنی پیش رفت کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق، جب انہوں نے دیکھا تو انہیں سخت دھچکا لگا کیونکہ ایک ناسمجھ انجینئر کی سربراہی میں آٹھ دس جونیئر لوگ ایک کھنڈر میں ایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ سب دیکھ کر بھٹو صاحب کو حقیقت سے آگاہ کیا، جس پر بھٹو صاحب بہت فکر مند ہوئے اور پوچھا کہ آپ کا کیا پروگرام ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ وہ چند ہفتوں میں واپس ہالینڈ جا رہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے فوراً کہا کہ آپ نہ جائیں، یہ کام آپ کے بغیر نہ ہو گا۔
ڈاکٹر صاحب نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ ان کی ہالینڈ میں اعلیٰ نوکری ہے اور ان کی بچیاں وہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن بھٹو صاحب نے پاکستان کے مستقبل کی فکر میں اصرار کیا، جس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ اپنی بیگم سے مشورہ کرکے بتائیں گے۔
یہاں سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا سفر شروع ہوا۔ اس دوران بہت سے مسائل اور غیر ملکی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ڈاکٹر صاحب لگے رہے۔ اس وقت کی حکومت اور فوج نے ڈاکٹر صاحب کو مکمل اختیارات دیے، اور یہ کام چلتا رہا۔ اس سفر میں کئی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات پیش آئے۔
مارشل لاء کے بعد، ایک دن اچانک جنرل ضیاء الحق نے کہوٹہ جانے کا فیصلہ کیا۔
ہم جیپ میں بیٹھے اور کہوٹہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ صدر صاحب نے کسی کو نہیں بتایا تھا، اس لیے کوئی حفاظتی جیپ نہ تھی۔ سہالہ سے سڑک بہت خراب تھی، اس میں کئی گڑھے اور دشوار موڑ تھے۔ میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ اس سڑک سے ہمارے سائنسدانوں اور انجینئروں کی جانوں کو خطرہ ہے۔ یہ سن کر جنرل ضیاء الحق نے فوراً جنرل ضامن نقوی کو حکم دیا کہ سڑک کو فوراً بہترین حالت میں بنا دیں اور چوڑا کر دیں۔
جنرل ضیاء الحق نے پلانٹ دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ یہ تو امریکی پلانٹ لگتا ہے۔ وہ وہاں سب چیزیں غور سے دیکھتے رہے۔ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تو جنرل ضیاء الحق نے ایک داڑھی والے ڈاکٹر عاصم فصیح کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ امامت کروائیں۔ ہم سب نے وہاں نماز ادا کی، اس کے بعد ہم آرمی ہاؤس پہنچ گئے۔ سڑک کا کام فوراً شروع ہو گیا اور بہترین سڑک تیار ہو گئی، جس سے ہمارے سفر کا وقت کافی کم ہو گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیان کرتے ہیں کہ ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے لیے امریکہ کے دباؤ کا سامنا کیا۔
امریکی مخبر سائنسدان جو اس پروگرام میں شامل تھے، انہیں بعد میں ہٹا دیا گیا۔ کرنل عبدالرحمن نے کہوٹہ میں سکیورٹی مضبوط کر دی تاکہ کوئی بھی معلومات باہر نہ جا سکیں۔ ایک دن ایک سپاہی ایک پتھر نما چیز لے کر آیا جس میں پیچیدہ آلات، خشک بیٹری، اور ٹرانسمیٹر تھا۔ یہ آلات یہاں کی معلومات باہر منتقل کر رہے تھے۔ ہم نے یہ آلات ناکارہ بنا دیے اور جنرل ضیاء الحق کو مطلع کیا۔
کچھ دن بعد امریکی سفیر نے جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کی اور ایٹمی معاملے پر بات چیت کی۔
جنرل ضیاء الحق نے نرم لہجے میں جواب دیا کہ ہم کوئی ایٹم بم نہیں بنا رہے۔ اس پر امریکی سفیر نے کہا کہ ہماری انٹیلیجنس بہت اچھی ہے، ہمیں آپ کے ناشتہ تک کا بھی علم ہو جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا کہ اگر آپ پتھر کی مدد سے معلومات حاصل کرتے ہیں تو وہ ہمارے جوانوں نے پکڑ کر ناکارہ بنا دی ہیں، اب آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ یہ سن کر سفیر کا چہرہ فق ہو گیا اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔
اسی طرح، بی بی سی نے ایک صحافی مارک ٹلی کو پاکستان بھیجا تاکہ وہ معلومات اکٹھی کر سکے۔ مارک ٹلی روز موٹرسائیکل پر میرے گھر کے چکر لگاتا تھا۔ میں نے ایک دن کرنل عبدالرحمن کو بتایا، جنہوں نے اپنے آدمیوں سے مارک ٹلی کو پکڑوا کر اس کی پٹائی کروائی اور پولیس کے حوالے کر کے ملک بدر کروا دیا۔
ڈاکٹر صاحب مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان آنے سے پہلے انہیں نائجیریا کی ایک ریاست میں سائنس لیکچرار کی آفر ہوئی۔ تنخواہ اچھی تھی، گھر مفت، ہر سال چھٹی، اور دیگر سہولیات تھیں۔ انہوں نے جانے کا فیصلہ کر لیا، مگر اپنے ایک پروفیسر، ایچ اشٹارک، سے مشورہ کرنے کا سوچا۔
پروفیسر نے کہا کہ خان، تم پوری زندگی ٹیچر بن کر گزار دو گے اور اپنی زندگی کا مقصد حاصل نہ کر سکو گے۔ یہ الفاظ ڈاکٹر صاحب کے دل میں تیر کی طرح لگے۔ انہوں نے نائجیریا جانے کا فیصلہ بدل دیا، برلن یونیورسٹی چلے گئے اور پھر پاکستان آ کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا۔
بلاشبہ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہم پر احسان ہے کہ آج ہم دنیا کی پہلی اسلامی اور ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔ یہ ان کی محنت اور پاکستان سے ان کے عشق کی داستان ہے۔
آج ڈاکٹر صاحب ہم میں موجود نہیں، مگر ان کا احسان ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔ پوری قوم ان کا شکریہ ادا کرتی ہے۔ شکریہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب!
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.