بہار آئی تو گلزار میں چمک آئی
جو دیکھا تو یار میں چمک آئی
لگتا ہے لہو اس پہ بے اختیار کا
یونہی نہیں، تری تلوار میں چمک آئی
عدو سے جنگ کرے اتنا حوصلہ ہی نہ تھا۔
جو دیکھا تو سالار میں چمک آئی
حضور اسے بھی آسرا شفاعت کا
طبیب دیکھ کے بیمار میں چمک آئی
وہ ایک اور لٹاتا ہوا حسیں پیکر
جس سے مصر کے بازار میں چمک آئی
شاعر:کاشف حسین غائر
(کاشف حسین غائر کی وال سے)