میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہو رہا ہوں
تیری نگہ کا جب سوں دیوانہ ہو رہا ہوں
اے آشنا کرم سوں یک بار آ درس دے
تجھ باج سب جہاں سوں بیگانہ ہو رہا ہوں
باتاں لگن کی مت پوچھ اے شمع بزم خوبی
مدت سے تجھ جھلک کا پروانہ ہو رہا ہوں
شاید وو گنج خوبی آوے کسی طرف سوں
اس واسطے سراپا ویرانہ ہو رہا ہوں
سودائے زلف خوباں رکھتا ہوں دل میں دائم
زنجیر عاشقی کا دیوانہ ہو رہا ہوں
برجا ہے گر سنوں نئیں ناصح تری نصیحت
میں جام عشق پی کر مستانہ ہو رہا ہوں
کس سوں ولیؔ اپس کا احوال جا کہوں میں
سر تا قدم میں غم سوں غم خانہ ہو رہا ہوں
شاعر: ولی دکنی۔
(شعری مجموعہ:انتخابِ ولی؛ اشاعت1971)